شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
by نسیم دہلوی

شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
مزا دینے لگے کچھ سہتے سہتے اب ستم تیرے

نہ پوچھ اب مجھ سے تو میری امیدوں کی یہ صورت ہے
کہ ہیں بھی اور نہیں بھی جس طرح پر لطف کم تیرے

جدھر تو نے کیا رخ زیر پا میرا تصور تھا
نہ باور ہو تو دیکھ آنکھوں میں ہیں نقش قدم تیرے

لب جاں بخش جاناں کب اجازت دیں گے مرنے کی
قیامت تک نہ دیکھیں گے قدم خواب عدم تیرے

نہیں رکھتا کوئی سرمایہ اعمال پاس اپنے
بھروسے کے لئے عاشق کے کافی ہیں کرم تیرے

تمنا غیر کی کرنا خلاف رسم الفت ہے
میں احسان اجل کیوں لوں نہیں ہیں کیا ستم تیرے

ذرا دیکھیں تو کیوں کر دم نکل جاتا ہے صدموں سے
فراق دل ربا آج امتحاں کرتے ہیں ہم تیرے

مجھے بھولے نہیں پاس محبت اس کو کہتے ہیں
شب وصلت میں بھی ہیں دوری جاناں کرم تیرے

ہجوم بے خودی میں اے نسیمؔ اب پاس معنی کیا
اجازت دے برا اچھا لکھیں جو کچھ قلم تیرے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.