شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
شکایت کے عوض ہم شکر کرتے ہیں صنم تیرے
مزا دینے لگے کچھ سہتے سہتے اب ستم تیرے
نہ پوچھ اب مجھ سے تو میری امیدوں کی یہ صورت ہے
کہ ہیں بھی اور نہیں بھی جس طرح پر لطف کم تیرے
جدھر تو نے کیا رخ زیر پا میرا تصور تھا
نہ باور ہو تو دیکھ آنکھوں میں ہیں نقش قدم تیرے
لب جاں بخش جاناں کب اجازت دیں گے مرنے کی
قیامت تک نہ دیکھیں گے قدم خواب عدم تیرے
نہیں رکھتا کوئی سرمایہ اعمال پاس اپنے
بھروسے کے لئے عاشق کے کافی ہیں کرم تیرے
تمنا غیر کی کرنا خلاف رسم الفت ہے
میں احسان اجل کیوں لوں نہیں ہیں کیا ستم تیرے
ذرا دیکھیں تو کیوں کر دم نکل جاتا ہے صدموں سے
فراق دل ربا آج امتحاں کرتے ہیں ہم تیرے
مجھے بھولے نہیں پاس محبت اس کو کہتے ہیں
شب وصلت میں بھی ہیں دوری جاناں کرم تیرے
ہجوم بے خودی میں اے نسیمؔ اب پاس معنی کیا
اجازت دے برا اچھا لکھیں جو کچھ قلم تیرے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |