شکایت سے غرض کیا مدعا کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
by نسیم دہلوی

شکایت سے غرض کیا مدعا کیا
نہیں تو دوست دشمن کا گلا کیا

نہ آیا نامہ بر گھبرا رہا ہوں
نہیں معلوم کیا گزری ہوا کیا

بہت اچھی نہایت خوب گزری
اجی آفت زدوں کا پوچھنا کیا

نہ دو مجھ کو مبارک باد بے سود
بری تقدیر والوں کا بھلا کیا

یہ کیوں چتون پھری کیوں آنکھ بدلی
بھلا میں نے قصور ایسا کیا کیا

کب اس کوچے میں ٹھہرے گی مری خاک
نہ ہوگا کوئی احسان ہوا کیا

امید اس سے غلط سمجھا یہ او دل
ستم گر سے تمنائے وفا کیا

بڑھا کر ہاتھ لیں ان کو یہ مشکل
نصیب ایسے مبارک پھر دعا کیا

نہ گھبراؤ اجی کروٹ نہ بدلو
ارادے ہیں ابھی خاطر میں کیا کیا

یہ کب تک پارسائی عاشقوں سے
محبت ہے تو پھر ہم سے حیا کیا

جگر پانی ہے صدموں سے لہو دل
مرے سینے میں او ظالم رہا کیا

کیا ہوتا کوئی احساں تو ظالم
کریں گے شکر تیرا ہم ادا کیا

نہیں ممکن کہ تجھ کو رحم آئے
وہ میں کیا اور میری التجا کیا

معاذ اللہ گر ہے نوجوانی
رہو گے عمر بھر تم پارسا کیا

کہاں ہے درد دل میں جو کہو ہائے
مزا دے گا ہمارا ماجرا کیا

کسے دیکھا کہ بھولا آپ کو بھی
تعجب ہے یہ مجھ کو ہو گیا کیا

نسیمؔ آؤ ذرا تم بھی سنو تو
یہ چرچا ہو رہا ہے جا بہ جا کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse