شوق گریزاں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوق گریزاں
by مجاز لکھنوی

دیر و کعبہ کا میں نہیں قائل
دیر او کعبہ کو آستاں نہ بنا

مجھ میں تو روح سرمدی مت پھونک
رونق بزم عارفاں نہ بنا

دشت ظلمات میں بھٹکنے دے
میری راہوں کو کہکشاں نہ بنا

عشرت جہل و تیرگی مت چھین
محرم راز دو جہاں نہ بنا

بجلیوں سے جہاں نہ ہو چشمک
اس گلستاں میں آشیاں نہ بنا

خار چشم حریف رہنے دے
حرز بازوئے دوستاں نہ بنا

میری خود بینیاں نہ لے مجھ سے
جلوہ افروز مہوشاں نہ بنا

دل صد پارۂ حوادث کو
تختۂ مشق گل رخاں نہ بنا

میری خودداریوں کا خون نہ کر
مطرب بزم دلبراں نہ بنا

ماہ و انجم سے مجھ کو کیا نسبت
مجھ کو ان کا مزاج داں نہ بنا

جس کو اپنی خبر نہیں رہتی
اس کو سالار کارواں نہ بنا

میری جانب نگاہ لطف نہ کر
غم کو اس درجہ کامراں نہ بنا

اس زمیں کو زمیں ہی رہنے دے
اس زمیں کو تو آسماں نہ بنا

میری ہستی نیاز و شوق سہی
اس کو عنوان داستاں نہ بنا

راز تیرا چھپا نہیں سکتا
تو مجھے اپنا راز داں نہ بنا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse