Jump to content

شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا

From Wikisource
شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا
by مجاز لکھنوی
304566شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگامجاز لکھنوی

شوق کے ہاتھوں اے دل مضطر کیا ہونا ہے کیا ہوگا
عشق تو رسوا ہو ہی چکا ہے حسن بھی کیا رسوا ہوگا

حسن کی بزم خاص میں جا کر اس سے زیادہ کیا ہوگا
کوئی نیا پیماں باندھیں گے کوئی نیا وعدہ ہوگا

چارہ گری سر آنکھوں پر اس چارہ گری سے کیا ہوگا
درد کہ اپنی آپ دوا ہے تم سے کیا اچھا ہوگا

واعظ سادہ لوح سے کہہ دو چھوڑے عقبیٰ کی باتیں
اس دنیا میں کیا رکھا ہے اس دنیا میں کیا ہوگا

تم بھی مجازؔ انسان ہو آخر لاکھ چھپاؤ عشق اپنا
یہ بھید مگر کھل جائے گا یہ راز مگر افشا ہوگا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.