شوق کو بے ادب کیا عشق کو حوصلہ دیا
Appearance
شوق کو بے ادب کیا عشق کو حوصلہ دیا
عذر نگاہ دوست نے جرم نظر سکھا دیا
آہ وہ بد نصیب آہ نالۂ عندلیب آہ
میرا فسانۂ الم جیسے مجھے سنا دیا
ٹوٹ سکا نہ پستئ فکر و نظر کا سلسلہ
دام نہ قفس کو ہم نے خود دام و قفس بنا دیا
میرے مذاق دید کی شرم اسی کے ہاتھ ہے
جس نے شعاع حسن کو حسن نظر بنا دیا
ناز و نیاز آشنا تغافل اعتبار
ہائے کس اہتمام سے تم نے مجھے مٹا دیا
خوب علاج کر دیا اپنے مریض عشق کا
درد مٹانے آئے تھے درد دیا مٹا دیا
ہائے وہ حسن و عشق جب باسطؔ بیقرار کو
برق نگاه دوست نے پھونک دیا جلا دیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |