شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا
by وحشت کلکتوی

شوق نے عشرت کا ساماں کر دیا
دل کو محو روئے جاناں کر دیا

تو نے اے جمعیت دل کی ہوس
اور بھی مجھ کو پریشاں کر دیا

واہ رے زخم محبت کی خلش
جس کو دل نے راحت جاں کر دیا

خود نمائی خود فروشی ہو گئی
آپ نے اپنے کو ارزاں کر دیا

ان کے دامن تک نہ پہنچا دست شوق
اس کو مصروف گریباں کر دیا

بزم میں جب غیر پر ڈالی نظر
آپ نے مجھ پر بھی احساں کر دیا

کچھ بڑھا کر میں نے بہر شرح غم
چاک کو عنوان داماں کر دیا

جھک گئی آخر حیا سے ان کی آنکھ
شوق نے مجھ کو پشیماں کر دیا

پائے بت پر میں نے دو سجدے کئے
کفر کو بھی جزو ایماں کر دیا

اسے خیال لیلیٰ مجنوں نواز
تو نے صحرا کو گلستاں کر دیا

ہو کے زائل قوت احساس نے
مشکلوں کو میری آساں کر دیا

دل نہیں جاتا تھا سوئے راہ دیر
کیسے کافر کو مسلماں کر دیا

تو نے وحشتؔ کیوں خلاف رسم عشق
درد کو رسوائے درماں کر دیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse