شوق سے خود جو مرے راہنما ہوتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوق سے خود جو مرے راہنما ہوتے ہیں
by عابد علی عابد

شوق سے خود جو مرے راہنما ہوتے ہیں
مری قسمت کہ وہی آبلہ پا ہوتے ہیں

لفظ کی بزم پر اسرار میں خوبان خیال
کبھی مستور کبھی چہرہ کشا ہوتے ہیں

شعر کے روپ میں ڈھلتے نہیں وہ ہنگامے
جو مری بزم تصور میں بپا ہوتے ہیں

اب یہ عالم ہے کہ مرنے پہ چلے آئیں جو دوست
وہ بھی من جملۂ ارباب وفا ہوتے ہیں

یہی بت شب کے اندھیرے میں جو ہیں طالب شوق
یہی بت دن کے اجالے میں خدا ہوتے ہیں

کوئی پروانوں کو سمجھاؤ کہ جینے کے سوا
اور بھی چند مقامات وفا ہوتے ہیں

بادہ نوشی پہ مصر بادہ فروشی پہ خفا
محو حیرت ہوں کہ یہ لوگ بھی کیا ہوتے ہیں

شرع و آئیں کی ہر اک آڑ میں کرتے ہیں سوال
یہ جو زرتار قباؤں میں گدا ہوتے ہیں

کیا بتائیں تجھے کیوں ہوتے ہیں اس بن بے چین
ناصحا تنگ نہ کر کہہ جو دیا ہوتے ہیں

مجھے بیتی ہوئی راتوں کی مہک آتی ہے
ہجر کے دن بھی تری زلف رسا ہوتے ہیں

لب پہ ہوتی ہوئی آنکھوں میں ہنسی جاتی ہے
اے بتو پیار کے انداز جدا ہوتے ہیں

مرے گلشن میں جو پابند قفس ہیں وہ طیور
دیدہ ور شعلہ زباں نغمہ سرا ہوتے ہیں

نظر آتے ہیں جہاں خون کے دریا جاری
تہ میں دیوانوں کے نقش کف پا ہوتے ہیں

شعر سن کر مرے ہنستے ہیں کہ عاشق ہے کہیں
یعنی خوبان ستم پیشہ بلا ہوتے ہیں

قرض جتنے غم دوراں کے ہیں مجھ پر عابدؔ
غم جاناں کے وسیلے سے ادا ہوتے ہیں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse