شوق راتوں کو ہے درپئے کہ تپاں ہو جاؤں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوق راتوں کو ہے درپئے کہ تپاں ہو جاؤں
by سراج الدین ظفر

شوق راتوں کو ہے درپئے کہ تپاں ہو جاؤں
رقص وحشت میں اٹھوں اور دھواں ہو جاؤں

ساتھ اگر باد سحر دے تو پس محمل یار
اک بھٹکتی ہوئی آواز فغاں ہو جاؤں

اب یہ احساس کا عالم ہے کہ شاید کسی رات
نفس سرد سے بھی شعلہ بجاں ہو جاؤں

لا صراحی کہ کروں وہم و گماں غرق شراب
اس سے پہلے کہ میں خود وہم و گماں ہو جاؤں

وہ تماشا ہوں ہزاروں مرے آئینے ہیں
ایک آئینے سے مشکل ہے عیاں ہو جاؤں

شوق میں ضبط ہے ملحوظ مگر کیا معلوم
کس گھڑی بے خبر سود و زیاں ہو جاؤں

ایسا انداز غزل ہو کہ زمانے میں ظفرؔ
دور آئندہ کی قدروں کا نشاں ہو جاؤں

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse