شوق دیتا ہے مجھے پیغام عشق

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوق دیتا ہے مجھے پیغام عشق
by وحشت کلکتوی

شوق دیتا ہے مجھے پیغام عشق
ہاتھ میں لبریز لے کر جام عشق

آپ ہوں ذوق اسیری سے خراب
کوئی لے جائے مجھے تا دام عشق

اشتیاق سجدہ سے بیتاب ہوں
اے حریم کعبۂ اسلام عشق

قیس و وامق سے کہاں اب اہل دل
تھا انہیں لوگوں سے روشن نام عشق

نعش پر فرہاد کے شیریں گئی
وہ ستم پروردۂ آلام عشق

اور یوں کرنے لگی رو کر خطاب
اے وفا کی جان اے ناکام عشق

تجھ سے رونق آشنا ہے صبح شوق
تجھ سے زینت آفریں ہے شام عشق

جان دے کر تو تو چھوٹا رنج سے
رہ گئی میں ہی بلا آشام عشق

تیرا مرنا عشق کا آغاز تھا
موت پر ہوگا مرے انجام عشق

وحشتؔ وحشی کہ تھا سب سے الگ
ہو گیا کیا بے تکلف رام عشق

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse