شوق دل فکر دہن میں ہے جو رہبر کی طرح

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوق دل فکر دہن میں ہے جو رہبر کی طرح
by منشی نوبت رائے نظر لکھنوی

شوق دل فکر دہن میں ہے جو رہبر کی طرح
ڈھونڈھتا ہوں چشمۂ حیواں سکندر کی طرح

میری آہوں کو عبث ہے نارسائی کا گلہ
دل میں گھر کرنا تو سیکھیں یاد دلبر کی طرح

سر سے پا تک ہے مثال گردن تسلیم خم
کس سے ہوتا ہے ادب قاتل کا خنجر کی طرح

تھا جو وقت قتل ارمان ہم آغوشی مجھے
خوں کی چھینٹیں لپٹی ہیں خنجر سے جوہر کی طرح

درد دل اٹھ اٹھ کے ڈھاتا ہے قیامت جان پر
شام ہجر عاشقاں ہے صبح محشر کی طرح

دل کو آنکھوں نے سجھائی ہیں جو راہیں عشق کی
ہر جگہ مجھ کو لیے پھرتا ہے رہبر کی طرح

یاد گیسو اک بلائے جاں ستاں ہے ہجر میں
کاٹے کھاتا ہے مرا گھر مجھ کو اژدر کی طرح

اس کو لطف درد اس کو لذت مشق جفا
دل کی عادت بگڑی ہے خوئے ستم گر کی طرح

ان کی آمد کی خبر سن کر ہجوم شوق سے
کشمکش ہے خانۂ دل میں بھرے گھر کی طرح

مثل دیوانہ پھرا کرتا ہے کیوں یہ روز و شب
آسماں کو بھی ہے کیا سودا مرے سر کی طرح

آپ کی غفلت سے ساری آرزوئیں مر گئیں
دل مرا ویران ہے اجڑے ہوئے گھر کی طرح

بن کے شبنم لاکھ ٹپکیں چشم اختر سے سرشک
روئے گا کیا آسماں اس دیدۂ تر کی طرح

ٹکڑے ٹکڑے دل جگر ہیں تیز فقروں سے حضور
آپ کی تیغ زباں چلتی ہے خنجر کی طرح

راہ میں دل نیچی نظروں سے ہوا جاتا ہے ذبح
جھک کے بھی چلتا ہے وہ قاتل تو خنجر کی طرح

شکر خالق ہے کہ بے منت میں ہوتا ہوں شہید
دل کو یاد ابروئے قاتل ہے خنجر کی طرح

توبہ توبہ کیا غضب ساقی کی غفلت نے کیا
سب کی صورت دیکھتا ہوں رند بے زر کی طرح

ہجر ساقی میں نظر آیا کہیں گر شغل مے
ڈبڈبائے دیدۂ تر چشم ساغر کی طرح

آرزوئے وصل قاتل اتنی ہے مجھ زار کو
ہوں ہمہ تن صورت آغوش خنجر کی طرح

اے نظرؔ عشق میان یار کا ہے یہ اثر
جسم لاغر جو نہاں ہے جاں کے جوہر کی طرح

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse