شور ہے اس سبزۂ رخسار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شور ہے اس سبزۂ رخسار کا
by امداد علی بحر

شور ہے اس سبزۂ رخسار کا
آج طوطی بولتا ہے یار کا

کس ادا سے ہاتھ رکھا قبضے پر
پڑ گیا پتلی میں دم تلوار کا

اشک بے تاثیر سے ہوں آب آب
عقدہ ہوں میں آنسوؤں کے تار کا

بجھ گیا میرا چراغ زندگی
دیکھ کر وہ قمقمہ رخسار کا

کس مرض کی ہے دوا عناب لب
خط‌ رخ نسخہ ہے کس بیمار کا

اب کی ایسی ہار ہے فصل بہار
گل ہے بتخالہ زبان خار کا

ابروئے غلماں ہے وہ محراب در
زلف حورا سایہ ہے دیوار کا

لینے والے لے گئے ہوش و حواس
بک گیا سودا مرے بازار کا

جب میں نکلا خلق نے گھیرا مجھے
میرا سودا قرض ہے بازار کا

جوۓ جنت ہے چہرے صیاد کی
میری گردن پر ہے حق گلزار کا

آب کاری کی ہو خدمت بحرؔ کو
نا خدا ہے کشتیٔ میخوار کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse