شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا
by نظیر اکبر آبادی

شور آہوں کا اٹھا نالہ فلک سا نکلا
آج اس دھوم سے ظالم تیرا شیدا نکلا

یوں تو ہم تھے یوں ہی کچھ مثل انار و مہتاب
جب ہمیں آگ دکھائی تو تماشا نکلا

غم سے ہم بھانمتی بن کے جہاں بیٹھے تھے
اتفاقاً کہیں وہ شوخ بھی واں آ نکلا

سینے کی آگ دکھانے کو دہن سے اپنے
شعلے پر شعلہ بھبھوکے پہ بھبھوکا نکلا

مت شفق کہہ یہ ترا خون فلک پر ہے نظیرؔ
دیکھ ٹپکا تھا کہاں اور کہاں جا نکلا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse