شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے
by مختار صدیقی

شوخ تھے رنگ ہر اک دور میں افسانوں کے
دل دھڑکتے ہی رہے آس میں انسانوں کے

علم نے خیر نہ چاہی کبھی انسانوں کی
ذرے برباد یونہی تو نہیں ویرانوں کے

راہیں شہروں سے گزرتی رہیں ویرانوں کی
نقش ملتے رہے کعبے میں صنم خانوں کے

زندگی والہ و شیدا رہی فرزانوں کی
نام روشن ہوئے ہر دور میں دیوانوں کے

مریمی مورد تہمت رہی ارمانوں کی
ٹکڑے اک دفتر الزام ہیں دامانوں کے

فکر سب کو ہے رفو کے لیے سامانوں کی
پوچھتا کوئی نہیں حال گریبانوں کے

قدر کچھ کم تو نہیں اب بھی تن آسانوں کی
روز و شب آج بھی بھاری ہیں گراں جانوں کے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse