شملے کی ریل گاڑی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شملے کی ریل گاڑی
by اختر شیرانی

سولن کی چوٹیوں سے
جھنڈی ہلا رہی ہے
غصے میں بے تحاشا
سیٹی بجا رہی ہے
دیکھو وہ آ رہی ہے
شملے کی ریل گاڑی
دو انجنوں کے منہ سے
شعلے نکل رہے ہیں
دو ناگ مل کے گویا
دوزخ اگل رہے ہیں
آنکھیں دکھا رہی ہے
شملے کی ریل گاڑی
سنسان گھاٹیوں پر
اونچی پہاڑیوں میں
پتھریلی چوٹیوں پر
ٹیلوں میں جھاڑیوں میں
لہراتی آ رہی ہے
شملے کی ریل گاڑی
لوہے کی ایک ناگن
بل کھا رہی ہو جیسے
اور اونچی چوٹیوں پر
لہرا رہی ہو جیسے
اس طرح آ رہی ہے
شملے کی ریل گاڑی
بن باسیوں کو کیا کیا
دل شاد کر رہی ہے
سنسان جنگلوں کو
آباد کر رہی ہے
بستی بسا رہی ہے
شملے کی ریل گاڑی
نکلی سرنگ سے یوں
جوں بل سے ناگ نکلے
چمکی سرے پہ جیسے
بھٹی سے آگ نکلے
کیا گل کھلا رہی ہے
شملے کی ریل گاڑی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse