شملہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شملہ
by اختر شیرانی

لوگ گرمی میں شملے جاتے ہیں
ٹھنڈے موسم کا لطف اٹھاتے ہیں
کتنی شفاف ہے فضا اس کی
کس قدر صاف ہے ہوا اس کی
اودی اودی گھٹائیں چھاتی ہیں
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں
ابھی بادل ہیں اور ابھی ہے دھوپ
دیکھو قدرت کے یہ انوکھے روپ
گر صفائی کے حال کو دیکھیں
آپ شملے کی مال کو دیکھیں
کتنی ستھری ہے ہر دکان یہاں
کتنا اچھا ہے ہر مکان یہاں
ہوٹلوں کی نفاستیں دیکھو
کوٹھیوں کی عمارتیں دیکھو
سبزہ وادی میں لہلہاتا ہے
پھرنے والوں کا جی لبھاتا ہے
اونچے پیڑوں کی ہے بہار یہاں
ہیں کھڑے چیل دیودار یہاں
ہیں بلندی پہ ہر مکان سے یہ
بات کرتے ہیں آسمان سے یہ
بادل اتنے قریب ہوتے ہیں
پیار سے منہ زمیں کا دھوتے ہیں
راستہ گر کہیں سے پاتے ہیں
بند کمروں میں بھی گھس آتے ہیں
یوں تو ہر منظر اس کا پیارا ہے
رات کا اور ہی نظارہ ہے
جب ہوں بجلی کے قمقمے روشن
دیکھو اس وقت شملے کا جوبن
قمقمے کیا ہیں کچھ ستارے ہیں
آسماں نے یہاں اتارے ہیں
شعلے سے اڑتے ہیں فضاؤں میں
شمعیں آوارہ ہیں ہواؤں میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse