شمع ساں شب کے میہماں ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شمع ساں شب کے میہماں ہیں ہم
by میر حسن دہلوی

شمع ساں شب کے میہماں ہیں ہم
صبح ہوتے تو پھر کہاں ہیں ہم

تم بن اے رفتگان ملک عدم
ہستی اپنی سے سرگراں ہیں ہم

باغباں ٹک تو بیٹھنے دے کہیں
آہ گم کردہ آشیاں ہیں ہم

دیکھتے ہیں اسی کو اہل نظر
گو نہاں ہے وہ اور عیاں ہیں ہم

نہ کسی کی سنیں نہ اپنی کہیں
نقش دیوار بوستاں ہیں ہم

جنس آسودگی نہیں ہم پاس
درد اور غم کے کارواں ہیں ہم

دل سے نالہ نکل نہیں سکتا
یاں تلک غم سے ناتواں ہیں ہم

کیا کہیں ہم حسنؔ بقول ضیاؔ
جس طرح سے کہ اب یہاں ہیں ہم

داغ ہیں کاروان رفتہ کے
نقش پائے گزشتگاں ہیں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse