شمع روشن ہے ہماری آہ سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شمع روشن ہے ہماری آہ سے
by داغ دہلوی

شمع روشن ہے ہماری آہ سے
لو لگائے بیٹھے ہیں اللہ سے

چلتے ہیں کیا کیا وہ رستہ کاٹ کر
جب گزرتے ہیں ہماری راہ سے

کیوں نہ رکھوں میں تبرک کی طرح
غم ملا ہے عشق کی درگاہ سے

ایک بوسہ پر ہمیں ٹالیں نہ آپ
کچھ علاوہ دیجئے تنخواہ سے

مانگ کر تجھ کو بہت نادم ہوا
مانگنا تھا اور کچھ اللہ سے

خوب صورت ہو کے تم لڑنے لگے
بحث ہے دن رات مہر و ماہ سے

تو نے واعظ زندگی دشوار کی
کیوں کیا واقف خدا کی راہ سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse