شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
by بہادر شاہ ظفر

شمشیر برہنہ مانگ غضب بالوں کی مہک پھر ویسی ہی
جوڑے کی گندھاوٹ قہر خدا بالوں کی مہک پھر ویسی ہی

آنکھیں ہیں کٹورا سی وہ ستم گردن ہے صراحی دار غضب
اور اسی میں شراب سرخی پاں رکھتی ہے جھلک پھر ویسی ہی

ہر بات میں اس کی گرمی ہے ہر ناز میں اس کے شوخی ہے
قامت ہے قیامت چال پری چلنے میں پھڑک پھر ویسی ہی

گر رنگ بھبوکا آتش ہے اور بینی شعلۂ سرکش ہے
تو بجلی سی کوندے ہے پری عارض کی چمک پھر ویسی ہی

نوخیز کچیں دو غنچہ ہیں ہے نرم شکم اک خرمن گل
باریک کمر جو شاخ گل رکھتی ہے لچک پھر ویسی ہی

ہے ناف کوئی گرداب بلا اور گول سریں رانیں ہیں صفا
ہے ساق بلوریں شمع ضیا پاؤں کی کفک پھر ویسی ہی

محرم ہے حباب آب رواں سورج کی کرن ہے اس پہ لپٹ
جالی کی کرتی ہے وہ بلا گوٹے کی دھنک پھر ویسی ہی

وہ گائے تو آفت لائے ہے ہر تال میں لیوے جان نکال
ناچ اس کا اٹھائے سو فتنے گھنگرو کی جھنک پھر ویسی ہی

ہر بات پہ ہم سے وہ جو ظفرؔ کرتا ہے لگاوٹ مدت سے
اور اس کی چاہت رکھتے ہیں ہم آج تلک پھر ویسی ہی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.