شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
by شکیب جلالی

شفق جو روئے سحر پر گلال ملنے لگی
یہ بستیوں کی فضا کیوں دھواں اگلنے لگی

اسی لئے تو ہوا رو پڑی درختوں میں
ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رت بدلنے لگی

اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا
زمیں پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی

کسی کا جسم اگر چھو لیا خیال میں بھی
تو پور پور مری مثل شمع جلنے لگی

میں ناپتا چلا قدموں سے اپنے سائے کو
کبھی جو دشت مسافت میں دھوپ ڈھلنے لگی

مری نگاہ میں خواہش کا شائبہ بھی نہ تھا
یہ برف سی ترے چہرے پہ کیوں پگھلنے لگی

ہوا چلی سر صحرا تو یوں لگا جیسے
ردائے شام مرے دوش سے پھسلنے لگی

کہیں پڑا نہ ہو پرتو بہار رفتہ کا
یہ سبز بوند سی پلکوں پہ کیا مچلنے لگی

نہ جانے کیا کہا اس نے بہت ہی آہستہ
فضا کی ٹھہری ہوئی سانس پھر سے چلنے لگی

جو دل کا زہر تھا کاغذ پہ سب بکھیر دیا
جو اپنے آپ طبیعت مری سنبھلنے لگی

جہاں شجر پہ لگا تھا تبر کا زخم شکیبؔ
وہیں یہ دیکھ لے کونپل نئی نکلنے لگی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse