شعلۂ آہ نے سیکھا ہے جلانا دل کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شعلۂ آہ نے سیکھا ہے جلانا دل کا
by جمیلہ خدا بخش

شعلۂ آہ نے سیکھا ہے جلانا دل کا
نہیں ملتا ہے جو پہلو میں ٹھکانا دل کا

شوخیاں آئیں گی بڑھنے دو ابھی سن ان کا
زلف پر پیچ سکھا دے گی پھنسانا دل کا

نئے انداز سے لیتے ہیں وہ دل عاشق کا
روش ناز سے سیکھا ہے چرانا دل کا

صورت برگ حنا کس نے بنایا تم کو
پیش کر پائے نگاریں میں لگانا دل کا

کیا مجھے دشت نوردی کا مزا دیتا ہے
جستجو میں تری یوں خاک اڑانا دل کا

کیا خبر تھی وہ پئے سیر ادھر آئے گا
سیکھتا پردۂ پہلو میں چھپانا دل کا

ان کے کوچہ میں بپا فتنۂ محشر نہ کرے
شب تاریک میں کیا شور مچانا دل کا

طور الفت پہ چلو تا میں دکھاؤں تم کو
ہو کے بے ہوش کبھی ہوش میں آنا دل کا

شکر کر شکر جمیلہؔ کہ زہے تیرا نصیب
ہو گیا کوچۂ جیلاں میں ٹھکانا دل کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse