شعلوں سے محبت کی مری جاں میں لگی آگ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شعلوں سے محبت کی مری جاں میں لگی آگ
by ماتم فضل محمد

شعلوں سے محبت کی مری جاں میں لگی آگ
پھر جاں سے بھڑک جسم کے میداں میں لگی آگ

یہ آتش غم ہے کہ دم سرد سے اپنے
سرچشمۂ خورشید درخشاں میں لگی آگ

اس حور کے کوچے میں بھرے ہم جو دم گرم
مردم نے کہا روضۂ رضواں میں لگی آگ

خنداں جو ہوا یار ہمیں دیکھ کے گریاں
لوگوں نے کہا برق سے باراں میں لگی آگ

ان روزوں میں ہے رنگ جو اشکوں کا گلابی
شاید کہ مرے دیدۂ گریاں میں لگی آگ

گرمی سے نگر کے ترے گن آب ہوا دیکھ
بلبل نے پکارا کہ گلستاں میں لگی آگ

ناری ہیں جو پریاں یہ سبب ہے کہ تمہارے
نور رخ روشن سے پرستاں میں لگی آگ

اس آتشیں رو کو بہ لب بام جو دیکھا
عالم نے کہا گنبد گرداں میں لگی آگ

دریا میں وہ دھویا تھا کبھی دست حنائی
حسرت سے وہیں پنجۂ مرجاں میں لگی آگ

غیروں کی طرف جو نظر مہر سے دیکھا
غیرت سے مرے سینۂ سوزاں میں لگی آگ

کیوں کوہ کن و قیس رہیں مجھ سے نہ نالاں
نالوں سے مرے کوہ و بیاباں میں لگی آگ

وہ سوختہ دل ہوں میں پس از مرگ جو گزرا
مرقد سے مرے یار کے داماں میں لگی آگ

ماتمؔ ہے کسی سوختہ دل کا اثر آہ
بے وجہ نہیں کوچۂ جاناں میں لگی آگ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse