شعر العجم پر ایک فلسفیانہ نظر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شعر العجم پر ایک فلسفیانہ نظر
by مہدی افادی

آج کل کے معیار زندگی میں بڑی مصیبت یہ ہے کہ ’’دوم درجہ‘‘ کوئی چیز نہیں یا تو صرف ’’لنگوٹی‘‘ ہو۔ جہاں اس سے بڑھے پھر بیچ میں رکنے کی گنجائش نہیں، ایک دم سے ’’اول درجہ‘‘ اختیار کرنا ہوگا۔ اصول ارتقاء کی تدریجی رفتار سے کام نہیں چلتا، درمیانی کڑیاں ملائیں، یعنی اپنی طرف سے کچھ ’’ایجاد بندہ‘‘ کی اور گئے! ذلیل ہوئے وہ علیحدہ۔بہرحال یہ مغربیت کا ایک راز ہے جس سے کسی طرح مفر نہیں۔ ہزار چیخئے چلائیے، ’خچر‘ سے کام نہیں چلنے کا! ’گدہا‘ شوق سے رکھئے پھر بھی یک رنگی (یعنی اریجنے لیٹی) ہے مگر جہاں ایک قدم آگے بڑھایا، یاد رکھئے، قطعاً ’عرب‘ رکھنا ہوگا۔ یہ فقرۂ معترضہ خود ایک مستقل عنوان چاہتا ہے جسے پھر کبھی دیکھئےگا، یہاں میری غرض ’’دوم درجہ‘‘ کے اظہار خیال یعنی ’شعر العجم‘ پر ایک غیر ستائشی جنبش لب سے ہے۔ایک صاحب نے اپنے دوستوں کے اصرار سے ’شعر العجم‘ پر تنقید نہیں بلکہ ڈنکے کی چوٹ صرف تنقیص کی ٹھہرائی ہے اور بزعم خود ’تصویر کا رخ تاریک‘ دکھایا ہے، لیکن ان کے خودرو خیالات کا بیشتر حصہ اہل تنقید (یعنی کریٹک) کی قلم آزمائی کے لئے بجائے خود ترغیب دہ مواد ہے۔ ملک میں اچھے لکھنے والے دوچار سے زیادہ نہیں ہیں، ان میں بھی تھوڑے ہی ایسے ہیں جو کسی موضوع پر ’تنقید عالیہ‘ (یعنی ہائر کریٹی سزم) کی صلاحیت رکھتے ہوں، شسکپیر کا وقیع ریویو ڈاکٹر جانسن لکھ سکا جو باعتبار وسعت معلومات اور مذاق ’ادب القدما‘ (یعنی کلاسیکل حیثیت سے) دنیا کے سب سے بڑے ’’شاعر‘‘ کا گویا مدّ اعلیٰ تھا۔میرا خیال ہے ملک میں ایسے نفوس قدسی صدیوں میں پیدا ہوں گے جو منصفانہ تنقید اور تنقیص بے جا یعنی عیب گیری کی حد فاصل کا احساس کر سکیں۔ اس لئے بے محل جنبش لب سے خاموشی اچھی۔ آپ خیر سے گونگے ہوں تو اعتراض کی بات نہیں۔ لیکن بولئے اور آدمی کی طرح نہ بولئے تو مجھے ضرور شکایت ہوگی۔ اس خلوص اور سچ کا کیا ٹھکانا ہے کہ ’شعر العجم‘ کے جزئی عیوب بھی ریویو نگار کے خیال میں اتنے ہیں کہ اگر وہ ابھار کر دکھائے جائیں تو ایک دوسری کتاب تیار ہو سکتی ہے۔حضرت کی نیت کی طرف سے اگر شروع ہی میں مجھے شبہ پیدا ہو گیا اور آگے چل کر میں ان کا ساتھ نہ دے سکوں تو یہ میرا قصور نہیں، خود ان کے دل کا کھوٹ ہے، جو بگڑی ہوئی زبان پر آہی گیا اور جس سے ایک کافی حد تک ان کی پاک طینتی کی غمازی ہوتی ہے۔(۱) اسلم کا یہ اعتراض کہ ہر زمانہ کی شاعری کے جداگانہ دور نہیں قائم کئے گئے صرف فصاحت کا ایک دھوکا ہے۔ ’شعر العجم‘ کے تین حصے اس وقت تک شائع ہو چکے ہیں اور جہاں تک میں دیکھ سکا، پہلے حصہ میں متقدمین کے کلام پر تفصیلی نظر ڈالی گئی ہے، دوسرے میں متوسطین اور تیسرے حصہ میں شاعری کے آخری دور یعنی متاخرین سے بحث کی گئی ہے، کتاب کی اجمالی ترتیب جیساکہ خود علامہ شبلی نے تصریح کر دی ہے، یہی ہے اور میں نہیں جانتا، ادبی حیثیت سے جو خاکہ فاضل مؤلف کے پیش نظر تھا اس میں ’’ایجاد بندہ‘‘ کی کہاں تک گنجائش ہے۔مجھ کو معلوم ہے پروفیسر براؤن نے مسلمانوں کی دماغی تاریخ لکھی ہے، اس کے دور سیاسی اور ملکی حیثیت سے قائم کئے ہیں، ہر دور کے ادبی ترقیات وہ ساتھ ساتھ دکھاتا گیا ہے اور عجمی عنصر کو الگ کرتا گیا ہے، لیکن اسی کے ساتھ میں کیمبرج کے ایک دوسرے پروفیسر کی جدید تالیف سے بھی واقف ہوں جو عربی لٹریچر کی ایک جامع تاریخ ہے، لیکن مؤلف نے صرف ادبی دور سے غرض رکھی ہے اور دیباچہ میں صاف لکھا ہے کہ اس کا ’’موضوع بحث‘‘ عربوں کے ’’ارتقاء خیال‘‘ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ شعر العجم کی ترتیب بھی نفس لٹریچر کے لحاظ سے ہے، لیکن اسلمؔ کی یہ ’’شپرانہ‘‘ چشم پوشی ہے کہ وہ چار آنکھیں رکھ کر بھی دیکھ نہیں سکتے۔ شاید دیکھنا نہیں چاہتے اور بڑی متانت سے فرماتے ہیں کہ ’’مولانا شبلی اپنے فرض اولین تک کا احساس نہ کر سکے۔‘‘ رہے ہر دور کی خصوصیات اور ان کے اسباب یعنی شاعری کے ارتقاء تدریجی کی موشگافیاں! اس نکتہ کو شبلی اسلم سے زیادہ سمجھتے ہیں۔شبلی، ملک میں پہلے شخص ہیں جن کو تاریخ و فلسفہ میں ربط باہمی کا خیال پیدا ہوا اور وہ ان جواہر عقلی کی تحلیل و ترکیب کیمیائی اس طرح کرسکے جس سے لٹریچر میں ایک خاص امتزاج پیدا ہو گیا ہے۔ انھوں نے اپنی متعدد قیمتی تصنیفات میں ہمیشہ اپنا درجہ قائم رکھا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ آج کل کے ترقی یافتہ مذاق ادبی کے مطابق وسیع سلسلۂ تحقیقات اور زبردست قوت استقرائی سے اسباب ونتائج کے تعریفات فلسفیانہ میں کس طرح کام لیا جاسکتا ہے۔ مجھ کو اصرار ہے کہ شبلی کی تحقیقات سے جو ان کے اولیات میں داخل ہونے کے لائق ہے، ہندوستان کی علمی قلمرو میں ایک نیا تاریخی دور شروع ہوگیا۔ اسلم کا سلیقہ تحریر میرے دعویٰ کے ثبوت میں ہے، گو اس کا افسوس ہے کہ وہ تاریخ کے ’’معلم اول‘‘سے جس پر ملک کو فخر کرنا چاہئے بری طرح پیش آئے، بہرحال شبلی چوتھے حصہ میں نہایت تفصیل سے شاعری پر فلسفیانہ نظر ڈالیں گے اور یہی حصہ ان کی طبع آزمائی کا اصلی جولان گاہ ہوگا۔(۲) شبلی نے بعض نمود کے شاعروں کو چھوڑ دیا ہے اور بعضوں کا خیال ہے کہ یہ اسی قسم کی فروگذاشت ہے جو آزادؔ سے ’’آب حیات‘‘ میں ہوئی، لیکن یہ قاصر النظری نہیں ہے بلکہ ایک مجتہدانہ فعل ہے، جس کی تصریح ایک صاحب نے کر دی ہے اور جس کے اعادے کی ضرورت یہاں نہیں ہے، تاہم اسلمؔ کی خاطر سے میں کم سے کم یہ چاہتا تھا کہ ہر دور کے شعراء کے نام ان کو گنوا دیے جاتے اور جو مفصل تنقید کے لائق نہیں تھے ان پر کم سے کم مختصر نوٹ ہوتے یعنی ارتقاء شاعری کے مستقل ارکان یعنی اصلی صورتوں کے ساتھ ان کا ہیولیٰ بھی نظر انداز نہ ہوتا یا منطق کی اصطلاح میں یوں کہئے کہ جو ہر وں کے ساتھ اعراض متعلقہ بھی لگے لپٹے رہتے۔ بات ذرالگتی ہوئی ہے لیکن مجھ کو معلوم ہے کہ چوتھے حصہ میں یہ سب کچھ ہوگا اور شبلی کی جدت اجتہاد نے جن شعراء کو ترجیح دی ہے یا جن کو چھوڑا ہے ان کے وجوہ تفصیل سے دکھائے جائیں گے۔(۳) یہ تو بالکل ہی غیر صحیح ہے کہ ’’ہرشاعر کا کلام مولانا اس قدر نقل کرتے ہیں کہ جی اکتا جاتا ہے۔‘‘ میرا خیال ہے جس قدر اقتباسات کئے گئے ہیں، ضرورت سے کم ہیں۔ فارسی لٹریچر مہذب دنیا میں ادب العالیہ یعنی کلاسیکس کا ایک ضروری عنصر سمجھا جاتا ہے، لیکن آج کل کی کاروباری زندگی میں جب ہم کو مشرقی لٹریچر کی طرف توجہ کرنے کی بالکل فرصت نہیں ہے، صرف یہی ایک طریقہ ہے کہ عربی فارسی لٹریچر کے بہترین اجزاء فلسفیانہ تنقید و تقریظ کے ساتھ نئی نسل کے سامنے پیش کئے جائیں، اس طرح قدیم لٹریچر کا وہ حصہ جو جاننے کے لائق ہے، ہمیشہ کے لئے محفوظ رہ جائےگا، لیکن اسلم نہیں سمجھتے۔(۴) اسلم کی ’غیر سعادت مندانہ‘ اپچ میں سب سے زیادہ مجھے جس بات پر لطف آیا وہ ’’حکمت بہ لقمان آموختن‘‘ کی جدت بے محل ہے۔ شبلی کی وسیع النظری اور ان کے لائق رشک ذرائع معلومات پر منھ آنا! سچ یہ ہے ’’سورج کو چراغ ہے دکھانا!‘‘ لیکن اگر ’’گھر کی مرغی کو ساگ کے برابر‘‘ نہ سمجھئے تو مجھ کو مجبوراً اعادہ کرنا پڑتا ہے کہ شبلی کا دائرۂ تحقیقات اتنا وسیع ہے کہ وہ یورپ کے مؤرخین کی صف اول میں جگہ پا سکتے ہیں۔ فارسی لٹریچر کے متعلق جن مغربی تصنیفات کی طرف اسلم نے اشارہ کیا ہے، وہ ایک ایک کرکے شبلی کے ناخنوں میں ہیں۔اسلمؔ علی گڈھ کے صدقہ میں ایک آدھ کتاب کا صرف نام سن پایا، یا طاہرؔ ہمدانی کے ہیرن ایلن ایڈیشن کو کہیں دور سے دیکھ لیا، لیکن مجھ کو معلوم ہے کہ خود ہیرن ایلن جس نے رباعیات خیام کے متعدد مطبوعات خاصہ شائع کئے ہیں اور جن میں سے ایک نہایت قیمتی ایڈیشن صرف دوسو ممبروں کے لئے چھاپا گیا تھا اور جو قطعاً اسلم کی نظر سے نہیں گذرا، شبلی کی ایک سرسری تحقیقات سے بے نیاز نہ رہ سکا، جس میں فارسی کے مسلم الثبوت استاد ’’پروفیسر ڈینی سن راس‘‘ نے بھی ٹھوکر کھائی تھی، لیکن یہ اس کی تصریح کا یہ موقع نہیں۔بہرحال مجھ کو اصرار ہے کہ فارسی اور عربی لٹریچر کے متعلق جس قدر مواد آج موجود ہے وہ سب شبلی کے پیش نظر ہی نہیں بلکہ جس طرح ولادت سے پہلے جنین کا پتہ چل جاتاہے، شبلی کے دائرۂ نظر میں یہ بات بھی رہتی ہے کہ اقطاع دماغی میں کہاں کہاں نئی داغ بیل پڑنے والی ہے اور ایشیا میں تو کچھ دم نہیں رہا، مگر یورپ دنیا کے معلومات میں کیا کیا اضافہ کرنے والا ہے؟ اسلم اگر اپنی تنگ نظری کے ساتھ شبلی کے مستشرقانہ کمالات کا اندازہ نہیں کر سکتے تو ہم ان کو معذور سمجھنے کے لئے تیار ہیں، لیکن مجھے جو کچھ شکایت ہے، یہ ہے کہ ’’وہ نہیں جانتے کہ کچھ نہیں جانتے۔‘‘آج کسی غیر ذمہ دار قلم نے شبلی کی یوں حق تلفی کی ہوتی تو خود اسلم کہہ اٹھتے کہ گولر کا بھُنگا فضائے دہر پر معترض ہو یا برساتی کیڑا زمانہ کے حدوث و قدم پر رائے زنی کرے تو اچھا نہیں معلوم ہوتا۔ لیکن میرا خیال ہے میرے معصوم دوست نے جو کچھ خامہ فرسائی کی وہ محض قصور استعداد ہے اس لیے ہم شبلی سے سفارش کرتے ہیں کہ مشرقی لٹریچر کے متعلق مطبوعات یورپ، جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی ہے، ان کی ایک فہرست اسلمؔ کو بھیج دیں، ہندستان میں بیٹھ کر یہ کیا کم ہے کہ ان کو اکٹھے بہت سے نام تو معلوم ہو جائیں گے۔(۵) شبلی کی مسلم الثبوت فارسیت کا اعتراف نہ کرنا، مولانا حالی کے ساتھ حسن ظن کے افراط کو صرف ’تحسین ناشناس‘ ثابت کرنا ہے۔ ملک میں پروفیسر آزاد کے بعد صرف شبلی ہیں جو فارسیت کا وجدانی مذاق رکھتے ہیں، فارسیت سے میری غرض اس فارسی سے نہیں ہے جو بابو انگلش کی طرح اسلمؔ نے بچپن میں پڑھی ہوگی، بلکہ میری غرض دنیا کی سب سے شیریں زبان سے ہے جو اس قوم کی زندہ یادگار ہے جو بلحاظ گزشتہ عظمت و ترقیات کے دنیا کی قدیم متمدن اقوام میں بھی خاص تاریخی وقعت رکھتی ہے۔انگلستان مستشرقانہ مشاغل کے لحاظ سے یورپ کے اور ممالک سے بہت پیچھے ہے تاہم وہاں ایک جماعت موجود ہے جو السنہ مشرقی میں اہل زبان کی سی مہارت رکھتی ہے جس میں پروفیسر براؤن آج کل بہت پیش پیش ہیں۔ یورپ کی ایک خاص طرح کی وسیع النظری میں کلام نہیں، یعنی اصول ارتقاء نے تحقیقات کے راستے اس قدر صاف کر دیے ہیں کہ ہر شے کے مدارج اور طبقات ترتیبی کی کڑیاں ملتی جاتی ہیں۔ لٹریچر بھی اس کلیے سے مستثنیٰ نہیں، تاہم مذاق سخن میں جو ایک ذوقی چیز ہے، ان فلسفیانہ اکتشافات سے کیا مدد مل سکتی ہے؟ شبلی جو کچھ لکھتے ہیں، آشنائے فن ہوکر لکھتے ہیں، اس لئے ان کے تالیفات مغربی معاصرانہ تصنیفات سے، جہاں تک ادبی مذاق کا تعلق ہے نسبتاً ہمیشہ فائق رہیں گے، اور یہاں مجھے صرف یہی دکھلانا تھا۔(نمبر ۶۔ ۷۔ ۸) یہ بھی صحیح نہیں کہ شبلی کو موازنہ انیسؔ و دبیرؔ میں کامیابی نہیں ہوئی۔ ’سون خواں‘ طبقہ جو چاہے کہے لیکن ’موازنہ‘ میں جو تعلیم یافتہ فرقہ شبلی کا مخاطب صحیح ہے، وہ اس کتاب کومؤلف کے کمالات میں اختراع فائقہ (یعنی ماسٹر پیس) نہ سہی تاہم اس میں کچھ شک نہیں کہ اردو ادب میں وہ اسے ایک قیمتی اضافہ سمجھتا ہے اور جس طرح شبلی کی پیداوار دماغی عموماً باستحقاق ’صف اول‘ میں جگہ پاتی رہتی ہے، ’موازانہ‘ بھی تنقید ادبی کی حیثیت سے ایک نصابی (اسٹنڈرڈ) چیز ہے اور وہ میرے آپ کے اعتراف کا محتاج نہیں۔ایک بزرگ سے جو ملک میں لکھنے پڑھنے کا نہایت صحیح مذاق رکھتے ہیں، ’موازنہ‘ کا ذکر آیا، وہ کچھ چپ سے ہو گئے۔ مجھے مجبوراً عرض کرنا پڑا کہ موازنہ میں جو کچھ نقص ہے، یہ ہے کہ آپ کے قلم کا نتیجہ نہیں ہے۔ اس برجستہ گرفت پر وہ پھڑک گئے اور ان کو اقرار کرنا پڑا کہ موازنہ سے اہل قلم کو جو کچھ شکایت ہو سکتی ہے اسی قبیل کی ہے۔ دہلی لکھنؤ والوں سے قطع نظر کئے لیتا ہوں، کیونکہ وہ سمجھتے ہوں گے شبلی کی طرف سے ’’ارض ممنوعہ‘‘ یعنی ان کی قلمرو میں مداخلت بیجا کی گئی۔اگر اشعار کی لطافت اور خوبی ایک وجدانی چیز ہے اور اس کا سمجھنا ذوق صحیح پر منحصر ہے، اور ان خوبیوں کا دکھانا بڑے اہل کمال کا کام ہے، تو میں خوش ہوں کہ شبلی حضرت حالی کے حریف مقابل نہ سہی تاہم وہ شاعری کے ملکۂ راسخہ، اور ادبی نکتہ سنجیوں کے لحاظ سے اتنی اونچی سطح پر ہیں کہ بڑے بڑے مستشرقین یورپ بھی ان کی گرد کو نہیں پہنچ سکتے۔یہ بھی غلط ہے کہ شبلی کو تصوف سے مناسبت نہیں ہے۔ میں کہیں لکھ چکا ہوں کہ تصوف، جیسا کہ اکثروں کا خیال ہے کہ ایک طرح کا خبط متعارف نہیں ہے بلکہ جیسا کہ خود شبلی نے تصریح کی ہے دراصل ’’تصحیح خیال‘‘ کا نام ہے، جو اخلاق کی طرح فلسفہ کی ایک مستقل شاخ ہے لیکن جس طرح توکل کا مصداق ایک طرح کی گداگری ہو رہی ہے، تصوف کی صورت بھی اتنی بگڑ گئی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ پیٹ کا ایک مشغلہ رہ گیا ہے۔ ہم تصوف کو صرف اس نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس میں ذوقی اور وجدانی کیفیت کے ساتھ ایک ادبی پہلو بھی موجود ہے، اگر وہ کوئی راز ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا چلا آیا ہے تو ہم کو بیسویں صدی میں اس کی طرف متوجہ ہونے کی بالکل فرصت نہیں، بہرحال تصوف اگر ایک خاص طرح کی لطافت جذبات کا نام ہے، جو حکیمانہ رنگ میں ڈوبی ہوئی ہو اور خیامؔ و حافظؔ اس میں رنگے ہوئے تھے تو شبلی پر بھی اس کی چھینٹیں پڑی ہیں۔صوفیانہ ریاضت و اعمال جو قطعاً غیر فطری ہیں، بے وقت کی شہنائی سے کم نہیں۔ ہم مردوں میں ’ہیسٹریا‘ یعنی اختناق الرحم کے خواص پیدا کرنا نہیں چاہتے، نہ تشنج اعصابی اور حرکات رقاصی کے لئے بوڑھے شبلی کہیں سے موزوں ہیں۔ اسلم اور ان کے یاران طریقت کو یہ ناچ ناچنا (افعال صوفیانہ) مبارک! دیکھئے یہ نہ کہئےگا،ایکہ آگاہ نہ حالت درویشاں راتو چہ دانی کہ چہ سودا بہ سرست ایشازاایک چیز پر آپ اس لئے سر دھنتے ہیں کہ وہ آپ کے ساتھ آپ کے اچھے اچھوں کی سمجھ میں نہیں آئی۔ بڑے بڑوں کو ارمان ہی رہا، ہم اس لئے اس سے پیچھا چھڑاتے ہیں کہ ہمیں اس خبط میں پڑنا منظور نہیں، نہ ہماری اخلاقی زندگی کی تکمیل کے لئے کہیں سے اس کی ضرورت ہے۔ آپ تزکیۂ باطن کے پیچھے پڑے ہیں، ہم کہتے ہیں کہ نفس خود پاک ہے، ذرا دعویٰ کی شرافت دیکھئےگا! یہ اگر جہالت ہے تو دنیا کے بڑے بڑے ’مستشرق‘ اپنی ’’بیگانہ دشی‘‘ پر ناز کرسکتے ہیں، جنھوں نے تصوف پر نہایت شرح و بسط سے فلسفیانہ بحث کی ہے۔یہ بھی غلط ہے کہ شبلی ’بزرگان اسلام‘ کا احترام نہیں کرتے۔ وہ ان کو لائق ادب ’’انسان‘‘ سمجھتے ہیں جس سے میرا منشاء ’مستجمع صفات کمالیہ انسانی‘ سے ہے جو سچی تعریف کی آخری حد ہے۔ اسلمؔ یا ان کے اور ہم مشربوں کی طرح ہر کس و ناکس کے ساتھ شبلی اس فیاضی سے پیش نہیں آتے کہ ’بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر۔‘ پڑھے لکھے آدمیوں میں ’عزت نفس‘ کا خیال اس قدر بڑھ رہا ہے کہ جہاں ہم خود صرف ’انسان‘ ہونا چاہتے ہیں، دوسروں کو بھی اس سے زیادہ ’بڑھانا‘ نہیں چاہتے۔ آج کل عوائد رسمیہ (یعنی ایٹی کٹ) کی رو سے غیر ضروری حسن ظن کی افراط صرف ’متروکات‘ میں داخل ہونے کے لائق نہیں، بلکہ ایک طرح کی وہم پرستی اور بیکار درد سری ہے جو تقویم پارینہ کی طرح پیچھا چھڑانے کی چیز ہے۔خیامؔ بیچارہ یورپ پہنچ کر کچھ غیرثقہ سا ہو گیا، لیکن حافظؔ کی بات ایشیا میں اس قدر بنی کہ ’چھوٹے پیمانہ کے پیغمبر‘ سمجھے جاتے ہیں، حالانکہ رندانہ توبہ صوفیانہ! ’خیالات موزوں‘ کے لحاظ سے ان کو صرف شاعر ہونا تھا۔ شبلی تو پھر بھی ان کو ’رئیس الشعراء‘ سمجھتے ہیں۔ خیامؔ کی مصطلح مے نوشی کی ضمن میں شبلی کی یہ شاعرانہ شوخی کہ ’’افسوس ہے کہ وہ فلسفی اور حکیم تھا، صوفی نہ تھا ورنہ حافظ کی طرح یہی شراب، شراب معرفت بن جاتی۔‘‘ ادبی نکتہ سنجی کی آخری حد ہے۔ شعر العجم میں یہی ایک فقرہ تو ہے جو اس قدر ’’باکیف‘‘ اور صوفیانہ رنگ میں ہے کہ دیکھتے ہی بس یہ معلوم ہوتا ہے جسم میں ایک برقی رَو دوڑ گئی، یہ اسلم کے بھونڈے مذاق کا پھوہڑپن ہے کہ وہ اس نزاکت خیال سے لطف نہ اٹھا سکے، اور ستم ظریفی یہ ہے کہ میری بدنصیبی سے ان کو سوجھی بھی تو اعتراض کی سوجھی۔اسی سلسلہ میں محمود کی غیر ضروری ثقاہت پر جہاں اسلم کو اصرار ہے، آپ نہایت بلند آہنگی سے فرماتے ہیں کہ ’’شبلی محمود اور اس کے زمانہ کی تاریخ ہی سے ناواقف نہیں بلکہ ان کو تاریخ کا صحیح مذاق بھی نہیں ملا ہے۔‘‘ غریب اسلم کو معلوم نہیں کہ شاہانہ معیار اخلاق بالکل ایک جداگانہ چیز ہے۔ یورپ میں جو ہیئت اجتماعی یعنی سوسائٹی کی مساوات کا مدعی ہے، حلقۂ شاہی آج بھی ایک ارضی شے یعنی اپنے خصائص کے لحاظ سے دنیا سے بالکل الگ تھلگ خیال کیا جاتا ہے۔ طبقۂ اوسط تو خیر، اعلیٰ طبقہ بھی بلحاظ خصائل اس سے اس قدر مختلف ہے کہ دونوں ایک قوم کے افراد مشترک نہیں معلوم ہوتے، لیکن ان شاہی حلقوں کا جلوہ پس پردہ دیکھئے تو معلوم ہو کہ موقع موقع سے کیا کچھ ہوتا رہتا ہے۔مسلمان بھی اپنے ’عہد زریں‘ میں نرے زاہد خشک نہیں تھے۔ ’الف لیلہ‘ کیا ہے؟ اس زمانہ کے شاہی گہوارۂ عیش (رائل کورٹ) اور اس وقت کی اونچی سوسائٹی کی خلوت آرائیوں کا اصلی مرقع ہے۔ ہارون رشید تو علانیہ رند مشرب تھا، لیکن محمود کی ایک رخی تصویر جو اسلمؔ دکھانا چاہتے ہیں وہ ان کے لائق رحم دوم درجہ کے معلومات کا نتیجہ ہے۔ ایک مؤرخ کو جو طبائع عالم کا نباض ہو، محمود پر اگر وہ تاریخی وقعت رکھتا ہے، گہری نظر ڈالنی ہوگی اور یہ ناممکن سا ہے کہ خصائل کے مختلف پہلو دائرہ نظر میں نہ آئیں، محمود میں اوصاف کے ساتھ کمزوریاں بھی تھیں، وہ انسان تھا فرشتہ نہیں تھا۔میں اس بے تکی بحث کے سلسلہ میں یہ بھی دکھانا چاہتا ہوں کہ ’’ایاز‘‘ کا وجود خیالی اسلم کے وجود یقینی سے زیادہ غیرمشتبہ ہے، اسلمؔ جن باتوں کو بازاری گپیں فرماتے ہیں، وہ انسانی سلسلۂ روایات اور ’’افسانہائے کہن‘‘ کی ضروری کڑیاں ہیں، جن سے ہم ایک منٹ کے لئے بھی دست بردار نہیں ہو سکتے۔ یورپ کا ایک زبردست مستشرق ’’ایسی سرد اور بے غایت تحقیقات کو نظر حقارت سے دیکھتا ہے جو کسی لطیف انسانی تخیل (آئیڈیل) کو جو وراثتاً زمانہائے دراز میں منتقل ہوتا ہوا ہم تک پہونچا ہے بغیر کسی کافی معاوضہ کے دفعتاً چھین لئے۔‘‘ وہ کہتا ہے کہ ’’مغربی سرد مہریاں یعنی نرے مادے اور سائنٹفک اکتشافات، مشرق کے وسیع عالم خیال اور اس کی لازوال دلچسپیوں اور نزاکتوں کی قائم مقامی نہیں کر سکتے، جن میں ایک خاص طرح کی گرمجوشی اور ایسی قوت اخلاقی موجود ہے جو سخت سے سخت مصائب انسانی میں بھی ہمارے آنسو پوچھتی رہتی ہے، ہم ہرمادی پیش قدمی کے ساتھ کچھ نہ کچھ کھوتے ہیں، جس کی بنا کسی شریف تر اور اعلیٰ تر اصول خیال پر ازل ہی میں پڑ چکی تھی۔‘‘خیر یہ باتیں اسلم کے دل ودماغ سے مناسبت نہیں رکھتیں، یونانیوں کی سی لطافت خیال اور مذاق حسن پرستی کی ضرورت ہے جو ہندوستان کے حکماء ادب (ڈاکٹر آف لٹریچر) میں صرف شبلی کا حصہ ہے۔میرا خیال ہے اب مجھے کچھ زیادہ کہنا نہیں ہے۔ ایک فقرہ رہ گیا تھا، وہ بھی لیجئے۔ شبلی پر یہ بھی الزام ہے کہ ’’وہ جوش میں آکر ایک (شاعر) کو دوسرے پر بے جا فوقیت دیتے ہیں یا جس کے حالات لکھتے ہیں اسی کے ہو رہتے ہیں۔‘‘ اسلمؔ کو معلوم نہیں کہ اس قسم کا جوش خاصۂ انسانی ہے، ایک انشا پرداز جہاں کسی اہل قلم کے وصف غالب کو ابھار کر دکھاتا ہے وہاں تنقید کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ دسرے جزئیات پر بھی نظر ڈالے، اس طرح جب مختلف شعراء پر جو قریب قریب ایک ہی سطح پر ہوں، نظر ڈالی جائےگی تو لازماً صفات مشترکہ میں تصادم ہوجائےگا، ان کا تجزیہ کرنا ان کو بچ بچ کر اس طرح دکھانا کہ ایک کا دوسرے سے امتیاز رہے اور ساتھ ہی صفت غالب آنکھوں کے سامنے سامنے آ جائے، ہر شخص کا کام نہیں ہے۔ اسلمؔ نے ساری عمر میں لے دے کر ’’حیات حافظ‘‘ لکھی اور اس وقت لکھی جب شعر العجم کے اجزاء متعلق علی گڈھ پریس میں ان کے پیش نظر تھی۔ وہ تصنیف کی اہم ذمہ داریوں سے ناآشنا سے ہیں ورنہ یوں شبلی کے منہ نہ آتے۔’شعر العجم‘ میں ’حیات سعدیؒ‘ سے علیحدہ ہوکر سعدیؒ پر اور خاص کر فردوسیؒ پر جس قدر نفاست سے تفصیلی نظر ڈالی گئی ہے، وہ بجائے خود ادبی فتوحات میں داخل ہونے کے لائق ہے، لیکن ’’چہ کنم کہ چشم بد بین نکند برونگا ہے۔‘‘مجھ کو افسوس ہے کہ اسلم کو ذرا سختی سے ٹوکنا پڑا، لیکن یہ سختی ان کے مرتبۂ انشا پردازی کے لحاظ سے ہے جس کی ذمہ داری ان کی غیرضروری اپج ہے۔ شعر العجم کی تنقیص سے، جس میں انھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے، انھوں نے شبلی سے زیادہ لٹریچر کی حق تلفی کی۔ خاص کر اس لحاظ سے کہ ملک میں پڑھے لکھوں کی تعداد کسرات سے آگے نہیں بڑھتی، ان میں بھی تھوڑے ہی ایسے ہیں جو اردو ادب کا مذاق صحیح رکھتے ہیں یا جن میں اظہار خیال سے پہلے صحیح رائے قائم کرنے کا سلیقہ ہو۔ ایسی حالت میں اسلم کی تنقیص بیجا رہنمائی کی جگہ صریحاً گمراہی کا سبب ہوگی۔ ادبی حیثیت سے عبد السلام ندوی، اسلمؔ کا توڑ کرچکے ہیں، میں نے جو کچھ لکھا ہے صرف ’ترکی بہ ترکی‘ کی حیثیت سے، جس کی غایت ’بھٹیاری کی توتو میں میں‘ سے زیادہ نہیں ہے، لیکن برا ماننے کی بات نہیں، میں نے صرف معاوضہ بالمثل سے کام لیا ہے، جس کی نظیر میرے سامنے موجود تھی۔یہ چند سطریں مجھے امید ہے کہ ایک ’بے ادب‘ کے لئے جو مذہبی مذاق رکھتا ہو محتسب کے درے ہیں جو حدود اخلاقی کے توڑنے کا شرعی علاج ہے۔ اچھا ہوتا اگر اسلم میری خاطر سے آئندہ اس فقرے کو عنوان زندگی بناتے ’’ایاز قدر خود بشناس۔‘‘اسی سلسلہ میں آجکل شبلی کی ’الکلام‘ پر جولے دے ہورہی ہے اور جو میرے موجودہ موضوع بحث سے خارج ہے، کچھ سرسری ریمارک کرنا چاہتا ہوں کسی آئندہ موقع پر مستقلاً نظر ڈالوں گا۔تنقید ’الکلام‘ میں لائق ’متعلم‘ نے نہایت قابلیت سے سائنس اور فلسفۂ حال کے معرکۃ الآراء مسائل سے بحث کی ہے، اس طرح اس سے پہلے ’راز‘ سے کبھی پردہ نہیں اٹھایا گیا لیکن صاحب تنقید کو یاد رکھنا چاہئے کہ ان کے حکیمانہ تذبذب فی المذہب (یعنی ایگناسٹک خیالات) کی زد پر صرف شبلی نہیں ہیں بلکہ خود مذہب مسائل مختلف فیہ کا ذمہ دار ہے۔ شبلی سے اگر غلطی ہوئی تو صرف اس قدر کہ انھوں نے مذہب کو آج کل کے عقلیات سے ٹکرایا، یہ غلطی اس سے پہلے بھی جب مسلمانوں کے اچھے دن تھے ہو چکی ہے، اور علم کلام کو عباسی دور کے دماغی ترقیات کے لحاظ سے ’یاد ایام‘ سمجھئے جو عقائد اسلام اور فلسفۂ قدیم کے گزشتہ اختلاط کی ادبی تاریخ ہے۔لیکن اس زمانہ میں اسلام کو صرف فلسفہ یعنی ایک حد تک محض اصول نظری سے سابقہ تھا، اس لئے جس طرح لحاف کی تیاری میں کچھ اَستر سے لیا اور کچھ اَبرہ سے، اور دونوں کا جھول جھال لے کر برابر کردیا، دونوں حریف جوچھری کٹاری ہو رہے تھے گلے ملوا دئے گئے۔ لیکن آج مذہب گو اپنے دشمن ازلی یعنی سائنس کا مقابلہ کرتا ہے جو قوی تر حریف ہے اور جو اپنے سوا دنیا میں کسی کو دیکھنا نہیں چاہتا۔ مذہب کے اولیات کا انحصار کلیۃً امور غیرمادی یعنی ایسی چیزوں پر ہے جو سرے سے مدرکات انسانی سے باہر ہیں، یعنی ہمارے قوائے فطری ان کے سمجھنے بوجھنے سے عاری ہیں اور سائنس صرف مادیت سے غرض نہیں رکھتا بلکہ اس کا دعویٰ ہے کہ عالم غیر کا خیر سے وجود ہی نہیں جس پر ہم آپ اس قدر مٹے ہوئے ہیں۔بہرحال فلسفہ پھر بھی اتنا برا نہیں کہ ’سنی سنائی‘ بھی کبھی مان لیتا ہے لیکن سائنس اتنا کٹّر ہے کہ جب تک ’آنکھوں دیکھی‘ نہ ہو، ہزار کہئے، کتنے ہی بڑے بڑے جبہ اور دستار پیش کیجئے، مذہب کی دہائی دیجئے ایک نہیں سنتا! ظاہر ہے کہ اتنا بڑا کافر برخود غلط کسی ’’شریعت سہلۃ‘‘ کی گرفت میں کہاں تک آ سکتا ہے؟لیکن کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم مذاہب سے عموماً دست بردار ہو جائیں؟ اس کا فیصلہ میں انسان کی اگلی پچھلی اخلاقی تاریخ پر چھوڑتا ہوں جس کی تکمیل کی نسبت خود فلسفہ کا یہ دعویٰ ہے کہ بغیر مذہب کے ہو ہی نہیں سکتی۔ شبلی نے الکلام میں نفس موضوع کے لحاظ سے جو روش اختیار کی، اس کے سوا چارہ کارہی کیا تھا۔ آپ کسی کے ہاتھ پر بیعت کرنی چاہیں تو پہلے ضرورت ہے کہ بڑے میاں سے آپ کو حسن ظن بھی ہو، یہ نہیں کہ ایک دم سے پگڑی اتار لی اور دعویٰ یہ کہ ’’ہم آپ کے خالص بہی خواہ ہیں، لگی لپٹی نہیں رکھتے۔‘‘طبائع انسانی کے لئے اگر مذہب کی ضرورت ہے تو اس کے مسلمات اعتقادات، جسے ایک طرح کی مجبوری کہئے، تسلیم کرنے ہوں گے، رہی معقول و منقول کی تطبیق، جہاں تک مذہب میں استطاعت ہے آپ دونوں کو ٹکرا سکتے ہیں، علم کلام کا اتنا ہی فرض ہے۔شبلی حکیمانہ خیالات کے ساتھ پھر بھی مذاق مذہبی رکھتے ہیں، اور ’مولویت‘ کو اپنی کسر شان نہیں سمجھتے، اور انھوں نے جو کچھ لکھا ہے حمایت مذہب میں لکھا ہے، لیکن اس پر بھی جہاں لائق ’متعلم‘ سائنس کے اکتشافات عالیہ کے مقابلہ میں خالی الذہن ہوکر فلسفیانہ استدلال سے مذہب کی دھجیاں اڑا رہا ہے، لکھنؤ کے ایک مشہور انشاپرداز شبلی کی مذہبی تحریرات سے عام سوء ظن پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ نہ جاننا بھی مزے کی بات ہے۔ حضرت کو ’اعتزال‘ کی فکر ہے جس میں پھر بھی ایک مذہبی رنگ ہے، لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس زمانہ میں سرے سے مذہب کی جان ہی کے لالے ہیں اور آج کسی ’مذہب آسمانی‘ میں اتنی قوت نہیں کہ وہ منحرف سائنس کو زیر کر سکے۔میں شعر العجم پر لکھتے لکھتے جانے کہاں سے کہاں بہک گیا، ان بے ربط خیالات کی تلافی اس وقت ہو رہےگی جب شبلی کے ’تذکرۂ شعراء‘ کا چوتھا حصہ شائع ہو لےگا جس کے لئے ابھی سے تیار رہئے۔ شبلی دنیا کی عام شاعری پر مفصل تنقیدی نظر ڈالیں گے اور دکھائیں گے کہ فارسی شاعری ’’ارتقاء ادبی‘‘ کے لحاظ سے کیا درجہ رکھتی ہے۔ یہ بحث جس قدر دلچسپ ہے، اس سے زیادہ مشکل ہے۔ پروفیسر براؤن سا محقق بھی اسے ٹال گیا لیکن شبلی لکھیں گے اور اچھی طرح لکھیں گے۔یہ چند سطریں ناظرین کی ضیافت طبع کے لئے خوش ذائقہ بریانی کی جگہ ابالے ہوئے سادے خشکے یعنی ماحضر کی حیثیت سے ہیں تاہم ادبی چانشی سے خالی نہیں! پرتکلف سامان انشاء اللہ آئندہ، جس کے لئے ابھی سے وعدہ ہے۔

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse