Jump to content

شریفن

From Wikisource
شریفن (1950)
by سعادت حسن منٹو
325086شریفن1950سعادت حسن منٹو

جب قاسم نے اپنے گھر کا دروازہ کھولا تو اسے صرف ایک گولی کی جلن تھی جو اس کی دہنی پنڈلی میں گڑ گئی تھی۔ لیکن اندر داخل ہو کر جب اس نے اپنی بیوی کی لاش دیکھی تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ قریب تھا کہ وہ لکڑیاں پھاڑنے والے گنڈاسے کو اٹھا کر دیوانہ وار نکل جائے اور قتل و گری کا بازار گرم کردے کہ دفعتاً اسے اپنی لڑکی شریفن کا خیال آیا۔

’’شریفن، شریفن!‘‘ اس نے بلند آواز میں پکارنا شروع کیا۔

سامنے دالان کے دونوں دروازے بند تھے۔ قاسم نے سوچا،شاید ڈر کے مارے اندر چھپ گئی ہوگی۔ چنانچہ وہ اس طرف بڑھا اور درز کے ساتھ منہ لگا کر کہا، ’’شریفن،شریفن۔۔۔ میں ہوں تمہارا باپ۔‘‘ مگر اندر سے کوئی جواب نہ آیا۔ قاسم نے دونوں ہاتھوں سے کواڑ کو دھکا دیا۔ پَٹ کھلے اور وہ اوندھے منہ دالان میں گر پڑا۔ سنبھل کر جب اس نے اٹھنا چاہا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ کسی۔۔۔ قاسم چیخ کےساتھ بیٹھا۔

ایک گز کے فاصلے پر ایک جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی۔ ننگی۔۔۔ بالکل ننگی۔ گورا گورا سڈول جسم، چھت کی طرف اٹھے ہوئے چھوٹے چھوٹے پستان۔۔۔ ایک دم قاسم کا سارا وجود ہل گیا۔ اس کی گہرائیوں سے ایک فلک شگاف چیخ اٹھی لیکن اس کے ہونٹ اس قدر زور سے بھنچے ہوئے تھے کہ باہر نہ نکل سکی۔ اس کی آنکھیں خود بخود بند ہوگئی تھیں۔ پھر بھی اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ مردہ سی آواز اس کے منہ سے نکلی، ’’شریفن۔‘‘ اور اس نے آنکھیں بند کیے دالان میں ادھر ادھر ہاتھ مار کر کچھ کپڑے اٹھائے اور انھیں شریفن کی لاش پر گرا کر وہ یہ دیکھے بغیر ہی باہر نکل گیا کہ وہ اس سے کچھ دور گرے تھے۔

باہر نکل کر اس نے اپنی بیوی کی لاش نہ دیکھی۔ بہت ممکن ہے اسے نظر ہی نہ آئی ہو۔ اس لیے کہ اس کی آنکھیں شریفن کی ننگی لاش سے بھری ہوئی تھیں۔ اس نے کونے میں پڑا ہوا لکڑیاں پھاڑنے والا گنڈاسا اٹھایا اور گھرسے باہر نکل گیا۔قاسم کی داہنی پنڈلی میں گولی گڑی ہوئی تھی۔ اس کا احساس گھر کے اندر داخل ہوتے ہی اس کے دل و دماغ سے محو ہوگیا تھا۔ اس کی وفادار پیاری بیوی ہلاک ہو چکی تھی۔ اس کا صدمہ بھی اس کے ذہن کے کسی گوشے میں موجود نہیں تھا۔ بار بار اس کی آنکھوں کے سامنے ایک ہی تصویر آتی تھی۔۔۔ شریفن کی۔۔۔ ننگی شریفن کی۔۔۔ اور وہ نیزے کی انی بن بن کر اس کی آنکھوں کو چھیدتی ہوئی اس کی روح میں بھی شگاف ڈال دیتی۔

گنڈاسا ہاتھ میں لیے قاسم سنسان بازاروں میں ابلتے ہوئے لاوے کی طرح بہتا چلا جارہا تھا۔ چوک کے پاس اس کی مڈبھیڑ ایک سکھ سے ہوئی۔ بڑا کڑیل جوان تھا۔ لیکن قاسم نے کچھ ایسے بے تکے پن سے حملہ کیا اور ایسا بھرپور ہاتھ مارا کہ وہ تیز طوفان میں اکھڑے ہوئے درخت کی طرح زمین پر آرہا۔

قاسم کی رگوں میں اس کا خون اور زیادہ گرم ہوگیا اور بجنے لگا۔ تڑتڑ تڑ تڑ۔۔۔ جیسے جوش کھاتے ہوئے تیل پرپانی کا ہلکا سا چھینا پڑ جائے۔

دور سڑک کے اس پار اسے چند آدمی نظر آئے۔ تیرکی طرح وہ ان کی طرف بڑھا اسے دیکھ کر ان لوگوں نے، ’’ہر ہر مہادیو‘‘ کے نعرے لگائے۔ قاسم نے جواب میں اپنا نعرہ لگانے کے بجائے انھیں ماں باپ کی موٹی موٹی گالیاں دیں اور گنڈاسا تانے ان میں گھس گیا۔

چند منٹوں ہی کے اندر تین لاشیں سڑک پر تڑپ رہی تھیں۔ دوسرے بھاگ گئے لیکن قاسم کا گنڈاسا دیر تک ہوا میں چلتا رہا۔ اصل میں اس کی آنکھیں بند تھیں۔ گنڈاسا گھماتے گھماتے وہ ایک لاش کے ساتھ ٹکرایا اور گر پڑا۔ اس نے سوچا کہ شاید اسے گرالیا گیا ہے۔ چنانچہ اس نے گندی گندی گالیاں دے کر چلانا شروع کیا، ’’مار ڈالو مجھے، مار ڈالو مجھے۔‘‘

لیکن جب کوئی ہاتھ اسے گردن پر محسوس نہ ہوا اور کوئی ضرب اس کے بدن پر نہ پڑی تو اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ سڑک پر تین لاشوں اور اس کے سوا اور کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک لحظے کے لیے قاسم کو مایوسی ہوئی کیونکہ شاید وہ مرجانا چاہتا تھا لیکن ایک دم شریفن۔۔۔ ننگی شریفن کی تصویر اس کی آنکھوں میں پگھلے ہوئے سیسے کی طرح اتر گئی اور اس کے سارے وجود کو بارود کا جلتا ہوا فلیتہ بنا گئی۔۔۔ وہ فوراً اٹھا۔ ہاتھ میں گنڈاسا لیا اور پھر کھولتے ہولے لاوے کی طرح سڑک پر بہنے لگا۔

جتنے بازار قاسم نے طے کیے، سب خالی تھے۔ ایک گلی میں وہ داخل ہوالیکن اس میں سب مسلمان تھے۔ اس کو بہت کوفت ہوئی۔ چنانچہ اس نے اپنے لاوے کا رخ دوسری طرف پھیر دیا۔ ایک بازارمیں پہنچ کر اس نے اپنا گنڈاسا اونچا ہوا میں لہرایا اور ماں بہن کی گالیاں اگلنا شروع کیں۔

لیکن ایک دن اسے بہت ہی تکلیف دہ احساس ہوا کہ اب تک وہ صرف ماں بہن کی گالیاں ہی دیتا رہا تھا۔ چنانچہ اس نے فوراً بیٹی کی گالی دینا شروع کی اور ایسی جتنی گالیاں اسے یاد تھیں سب کی سب ایک ہی سانس میں باہر الٹ دیں۔۔۔ پھر بھی اس کی تشفی نہ ہوئی۔ جھنجھلا کر وہ ایک مکان کی طرف بڑھا، جس کے دروازے کے اوپر ہندی میں کچھ لکھا تھا۔

دروازہ اندر سے بند تھا۔ قاسم نے دیوانہ وار گنڈاسا چلانا شروع کیا۔ تھوڑی ہی دیر میں دونوں کواڑ ریزہ ریزہ ہوگئے۔ قاسم اندر داخل ہوا۔

چھوٹا سا گھر تھا۔ قاسم نے اپنے سوکھے ہوئے حلق پر زور دے کر پھر گالیاں دینا شروع کیں، ’’باہر نکلو۔۔۔ باہر نکلو۔‘‘

سامنے دالان کے دروازے میں چرچراہٹ پیدا ہوئی۔ قاسم اپنے سوکھے ہوئے حلق پر زور دے کر گالیاں دیتا رہا۔ دروازہ کھلا۔ ایک لڑکی نمودار ہوئی۔قاسم کے ہونٹ بھینچ گئے۔ گرج کر اس نے پوچھا، ’’کون ہو تم؟‘‘ لڑکی نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری اور جواب دیا، ’’ہندو۔‘‘

قاسم تن کر کھڑا ہوگیا۔ شعلہ بار آنکھوں سے اس نے لڑکی کی طرف دیکھا جس کی عمر چودہ یا پندرہ برس کی تھی اور ہاتھ سے گنڈاسا گرادیا۔ پھر وہ عقاب کی طرح جھپٹا اور اس لڑکی کو دھکیل کر اندر دالان میں لے گیا۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے دیوانہ وار کپڑے نوچنے شروع کیے، دھجیاں اور چندیاں یوں اڑنے لگیں جیسے کوئی روئی دھنک رہاہے۔

تقریباً آدھ گھنٹہ قاسم اپناا نتقام لینے میں مصروف رہا۔ لڑکی نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ اس لیے کہ وہ فرش پر گرتے ہی بیہوش ہوگئی تھی۔جب قاسم نے آنکھیں کھولیں تو اس کے دونوں ہاتھ لڑکی کی گردن میں دھنسے ہوئے تھے۔ ایک جھٹکے کے ساتھ انھیں علیحدہ کرکے وہ اٹھا۔ پسینے میں غرق اس نے ایک نظر اس لڑکی کی طرف دیکھا تاکہ اس کی اور تشفی ہوسکے۔

ایک گز کے فاصلے پر اس جوان لڑکی کی لاش پڑی تھی۔۔۔ ننگی۔۔۔ بالکل ننگی۔ گورا گورا سڈول جسم، چھت کی طرف اٹھے ہوئے چھوٹے پستان۔۔۔ قاسم کی آنکھیں ایک دم بند ہوگئیں۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا۔ بدن پر گرم گرم پسینہ برف ہوگیا اور اس کی رگوں میں کھولتا ہوا لاوا پتھر کی طرح منجمد ہوگیا۔

تھوڑی دیر کے بعد ایک آدمی تلوار سے مسلح مکان کے اندر داخل ہوا۔ اس نے دیکھا کہ دالان میں کوئی شخص آنکھیں بند کیے لرزتے ہاتھوں سے فرش پر پڑی ہوئی چیز پر کمبل ڈال رہا ہے۔ اس نے گرج کر اس سے پوچھا، ’’کون ہو تم؟‘‘ قاسم چونکا۔۔۔ اس کی آنکھیں کھل گئیں مگر اسے کچھ نظر نہ آیا۔

مسلح آدمی چلایا، ’’قاسم!‘‘

قاسم ایک بار پھر چونکا۔ اس نے اپنے سے کچھ دور کھڑے آدمی کو پہچاننے کی کوشش کی مگر اس کی آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔مسلح آدمی نے گھبراتے ہوئے لہجے میں پوچھا، ’’کیا کررہے ہو تم یہاں؟‘‘

قاسم نے لرزتے ہوئے ہاتھ سے فرش پر پڑے ہوئے کمبل کی طرف اشارہ کیا اور کھوکھلی آواز میں صرف اتنا کہا، ’’شریفن۔۔۔‘‘

جلدی سے آگے بڑھ کر مسلح آدمی نے کمبل ہٹایا۔ ننگی لاش دیکھ کر پہلے وہ کانپا، پھر ایک دم اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔ آنکھوں پر ہاتھ رکھ کر وہ ’’بملا بملا‘‘ کہتا لڑکھڑاتے ہوئے قدموں سے باہر نکل گیا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.