شرم آلود کہیں دیدۂ غماز نہ ہو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شرم آلود کہیں دیدۂ غماز نہ ہو
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

شرم آلود کہیں دیدۂ غماز نہ ہو
دلبری کا کوئی پہلو نظر انداز نہ ہو

دور سے درد بھری ایک صدا آتی ہے
میرے ٹوٹے ہوئے دل کی کہیں آواز نہ ہو

لذت درد کا مہجور سہارا کیوں لیں
لطف تنہائی تو جب ہے کوئی دم ساز نہ ہو

شکر صد شکر کہ اے شوق مرا طائر دل
بال و پر ہوتے ہوئے مائل پرواز نہ ہو

منتظر بزم ہے آ جائیں بصد عشوۂ و ناز
شرط یہ ہے کہ نگاہ غلط انداز نہ ہو

یہ بھی کیا دور ہے نیرنگی عالم تیرا
مرغ آسودہ چمن زمزمۂ پرواز نہ ہو

کثرت جلوہ میں گم ہے دل ہنگامہ فروز
بے خودی کہتی ہے میرا کوئی ہم راز نہ ہو

سر مقتل کوئی اس شان سے آئے اے شوقؔ
لب پہ اعجاز نہ ہو چشم فسوں ساز نہ ہو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse