شرمندہ کیا جوہر بالغ نظری نے
Appearance
شرمندہ کیا جوہر بالغ نظری نے
اس جنس کو بازار میں پوچھا نہ کسی نے
صد شکر کسی کا نہیں محتاج کرم میں
احسان کیا ہے تری بیداد گری نے
محتاج تھی آئینے کی تصویر سی صورت
تصویر بنایا مجھے محفل میں کسی نے
گل ہنستے ہیں غنچے بھی ہیں لبریز تبسم
کیا ان سے کہا جا کے نسیم سحری نے
مایوس نہ کر دے کہیں ان کی نگہ گرم
امید دلائی ہے مجھے سادہ دلی نے
محنت ہی پہ موقوف ہے آسائش گیتی
کھوئی مری راحت مری راحت طلبی نے
وحشتؔ میں نگاہوں کے تجسس سے ہوں آزاد
احسان کیا مجھ پہ مری بے ہنری نے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |