شرمندہ کیا جوہر بالغ نظری نے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شرمندہ کیا جوہر بالغ نظری نے
by وحشت کلکتوی

شرمندہ کیا جوہر بالغ نظری نے
اس جنس کو بازار میں پوچھا نہ کسی نے

صد شکر کسی کا نہیں محتاج کرم میں
احسان کیا ہے تری بیداد گری نے

محتاج تھی آئینے کی تصویر سی صورت
تصویر بنایا مجھے محفل میں کسی نے

گل ہنستے ہیں غنچے بھی ہیں لبریز تبسم
کیا ان سے کہا جا کے نسیم سحری نے

مایوس نہ کر دے کہیں ان کی نگہ گرم
امید دلائی ہے مجھے سادہ دلی نے

محنت ہی پہ موقوف ہے آسائش گیتی
کھوئی مری راحت مری راحت طلبی نے

وحشتؔ میں نگاہوں کے تجسس سے ہوں آزاد
احسان کیا مجھ پہ مری بے ہنری نے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse