شرارے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شرارے
by مجاز لکھنوی

خود کو بہلانا تھا آخر خود کو بہلاتا رہا
میں بہ ایں سوز دروں ہنستا رہا گاتا رہا
مجھ کو احساس فریب رنگ و بو ہوتا رہا
میں مگر پھر بھی فریب رنگ و بو کھاتا رہا
میری دنیائے وفا میں کیا سے کیا ہونے لگا
اک دریچہ بند مجھ پر ایک وا ہونے لگا
اک نگار ناز کی پھرنے لگیں آنکھیں مجازؔ
اک بت کافر کا دل درد آشنا ہونے لگا
عین ہنگام طرب روح طرب تھرا گئی
دفعتاً دل کے افق پر اک گھٹا سی چھا گئی
ایک آغوش تمنا کا تقاضا دیکھ کر
ایک دل کی سرد مہری بھی مجھے یاد آ گئی
مجرم سرتابی حسن جواں ہو جائیے
گل فشانی تا کجا شعلہ فشاں ہو جائیے
کھائیے گا اک نگاہ لطف کا کب تک فریب
کوئی افسانہ بنا کر بد گماں ہو جائیے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse