شراب پی جان تن میں آئی الم سے تھا دل کباب کیسا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شراب پی جان تن میں آئی الم سے تھا دل کباب کیسا  (1900) 
by حبیب موسوی

شراب پی جان تن میں آئی الم سے تھا دل کباب کیسا
گلے سے لگ جاؤ آؤ صاحب کہاں کا پردہ حجاب کیسا

اب آؤ بھی ہر طرف تکلف نقاب کیسی کہاں کا پردہ
جھکائے کیوں سر ہو شرم سے تم عیاں ہے رخ سے حجاب کیسا

بڑھا جو میں رکھ کے عذر مستی کہا یہ ہنس کر چڑھا کے تیوری
ہٹو ذرا ہوش میں رہو جی سنبھالو دل اضطراب کیسا

تمہیں مبارک ہو جو لیا ہے بھلا دو جو ہم کو دے دیا ہے
جو ہو گیا اس کا ذکر کیا ہے یہ دوستوں میں حساب کیسا

بہار کے دن ہیں کیا مزہ ہے شراب کا دور چل رہا ہے
لگا ہے سبزہ چمن کھلا ہے برس رہا ہے سحاب کیسا

میں رشک مجنوں ہوں دیکھ ادھر تو نہ لا صبا گلستاں کی خوشبو
غبار کی ہے دماغ کو خو کہاں کا عطر اور گلاب کیسا

وہ چشم کرتی ہے صید آہو ہیں اتنے تیر مژہ ترازو
پکار ہوگی یہ کل کو ہر سو کریہہ ہے مشک ناب کیسا

کبھی وہ مستی میں رنگ لائے کبھی کیا شاد مسکرائے
عجب طرح کے مزے اٹھائے وصال کی شب میں خواب کیسا

نہ میل کر ساقیا یوں ہی دے پسند مجھ کو نہیں کوئی شے
جگر پہ چرکا لگے پیاپے کہاں کا پانی گلاب کیسا

نہیں ہے دوزخ کا دل کو کچھ غم مری بھی سن ناصحا ذرا تھم
رحیم وہ پر گناہ ہیں ہم عذاب کیسا ثواب کیسا

جو روز ہے رخ تو زلف ہے شب ذقن ہے مانند چاہ نخشب
یہ حال ہے بچپنے میں یا رب تو ہوگا عہد شباب کیسا

یہ دور ہے چشم سرمہ گوں کا فلک ہے اک قطرہ بحر خوں کا
جہان میں رنگ ہے فسوں کا ہے مست ہر شیخ و شباب کیسا

حبیبؔ ہیں بند کام تیرے کہاں ہیں شاہ انام تیرے
نہیں پہنچتے امام تیرے ہے بندۂ بو تراب کیسا

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse