شراب آئے تو کیف و اثر کی بات کرو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شراب آئے تو کیف و اثر کی بات کرو
by اختر انصاری اکبرآبادی

شراب آئے تو کیف و اثر کی بات کرو
پیو تو بزم میں فکر و نظر کی بات کرو

فسانۂ خم گیسو میں کیف کچھ بھی نہیں
نظام عالم زیر و زبر کی بات کرو

چمن میں دام بچھاتا ہے وقت کا صیاد
گلوں سے حوصلۂ بال و پر کی بات کرو

قبائے زہد کی پاکیزگی تو دیکھ چکے
شراب خانے میں دامان تر کی بات کرو

کہانیاں شب ہجراں کی ہو چکی ہیں تمام
سحر طلوع ہوئی ہے سحر کی بات کرو

چمن چمن میں ادھر ہو رہی ہے حد بندی
کھلی فضائیں جدھر ہیں ادھر کی بات کرو

گلوں کا ذکر بہاروں میں کر چکے اخترؔ
اب آؤ ہوش میں برق و شرر کی بات کرو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse