شراب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شراب
by میراجی

فضول ہے
یہ گفتگو ہے
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں
چلو چلیں
چلو چلیں جہاں ہمیں خیال ہی نہ آئے زندگی نظر کی بھول ہے
چلو چلیں جہاں یہ در یہ دستکوں پہ دستکیں سنائی ہی نہ دے سکیں
جہاں یہ روزن زبوں نگاہ کی مخاصمت نہ کر سکے
جہاں کھلی فضا کھلی فضا کہ جیسے کوئی کہہ رہا ہو آئیے
یہ کہہ رہی ہو آئیے کھلی فضا ہے یہ یہاں تو آئیے

مگر کھلی فضا میں بھی کبھی گڑھے کبھی ستادہ پیڑ کہہ رہے ہیں دیکھیے
یہ گفتگو فضول ہے
فضول ہے
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں
چلو چلیں
جو گود ماں کی تھی وہ ماں کی گود تھی
وہاں ہر ایک بات جو فضول تھی وہ ایک بھول تھی
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں
چلو چلیں
بہن یہ کہہ رہی تھی اب تو آپ گھر بسا ہی لیں
میں سوچتا تھا کس کا گھر ہمارا گھر تمہارا گھر
اور اس پہ بھائی بول اٹھا فضول ہے یہ گفتگو فضول ہے
نگاہ دیکھتی ہے طاق میں رکھی ہیں چند بوتلیں

چلو چلیں جہاں نہ کوئی طاق ہو نہ چند بوتلیں جہاں نہ کہہ سکیں چلو چلیں
یہ گفتگو فضول ہے
مگر وہاں کوئی گڑھا نہ ہو نہ کوئی پیڑ ہو
وہاں سکون آخری سے جا ملیں

مگر یہاں بھی طاق پر رکھی ہیں چند بوتلیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse