شب ہجر آہ کدھر گئی کہوں کس سے نالہ کدھر گیا
شب ہجر آہ کدھر گئی کہوں کس سے نالہ کدھر گیا
جو گزر گئی وہ گزر گئی جو گزر گیا وہ گزر گیا
جو تمہاری آنکھ سے گر پڑا جو تمہارے دل سے اتر گیا
وہ غریب جیتے جی مر گیا وہ کہاں گیا وہ کدھر گیا
کوئی اپنے بچنے کا ڈھب نہیں کوئی زندگی کا سبب نہیں
مرے پاس دل بھی تو اب نہیں وہ ادھر گئے یہ ادھر گیا
کوئی درد ہو تو دوا کروں نہ بنے دوا تو دعا کروں
اسے کیا کہوں اسے کیا کروں کہ میں ان کے دل سے اتر گیا
اسے دل لگی کا مزا ملا اسے عاشقی کا مزا ملا
اسے زندگی کا مزا ملا جو تری اداؤں پہ مر گیا
کوئی دوست ہے کہ غلام ہے کوئی یہ بھی طرز کلام ہے
وہ کہاں گیا وہ کہاں گیا وہ کدھر گیا وہ کدھر گیا
ترے ظلم اور ستم سہے ترے جاں نثار بھی ہم رہے
نہ رقیب جس کو ہر اک کہے کہ تری جفاؤں سے ڈر گیا
رہے کیوں نہ سینے میں دم خفا یہ نیا ستم ہے نئی جفا
کہوں کیا صفیؔ کوئی بے وفا مرے دل کو لے کر مکر گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |