شب ہجر آہ کدھر گئی کہوں کس سے نالہ کدھر گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب ہجر آہ کدھر گئی کہوں کس سے نالہ کدھر گیا
by صفی اورنگ آبادی

شب ہجر آہ کدھر گئی کہوں کس سے نالہ کدھر گیا
جو گزر گئی وہ گزر گئی جو گزر گیا وہ گزر گیا

جو تمہاری آنکھ سے گر پڑا جو تمہارے دل سے اتر گیا
وہ غریب جیتے جی مر گیا وہ کہاں گیا وہ کدھر گیا

کوئی اپنے بچنے کا ڈھب نہیں کوئی زندگی کا سبب نہیں
مرے پاس دل بھی تو اب نہیں وہ ادھر گئے یہ ادھر گیا

کوئی درد ہو تو دوا کروں نہ بنے دوا تو دعا کروں
اسے کیا کہوں اسے کیا کروں کہ میں ان کے دل سے اتر گیا

اسے دل لگی کا مزا ملا اسے عاشقی کا مزا ملا
اسے زندگی کا مزا ملا جو تری اداؤں پہ مر گیا

کوئی دوست ہے کہ غلام ہے کوئی یہ بھی طرز کلام ہے
وہ کہاں گیا وہ کہاں گیا وہ کدھر گیا وہ کدھر گیا

ترے ظلم اور ستم سہے ترے جاں نثار بھی ہم رہے
نہ رقیب جس کو ہر اک کہے کہ تری جفاؤں سے ڈر گیا

رہے کیوں نہ سینے میں دم خفا یہ نیا ستم ہے نئی جفا
کہوں کیا صفیؔ کوئی بے وفا مرے دل کو لے کر مکر گیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse