شب ہجراں میں دم نکلتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب ہجراں میں دم نکلتا ہے
by میر کلو عرش

شب ہجراں میں دم نکلتا ہے
کب پیام وصال ٹلتا ہے

دل بیمار سے ہے تنگ مسیح
داغ سے آفتاب جلتا ہے

بے زری سے ہوں پائمال بتاں
زور کس کا خدا سے چلتا ہے

دل نہ لے اے صنم برائے خدا
اس سے کچھ جی مرا بہلتا ہے

آتش عشق زلف پیچاں ہے
ہڈیوں سے دھواں نکلتا ہے

تیرے ہنسنے پہ میں جو روتا ہوں
ابر مانند برق جلتا ہے

تجھ سے اے اشک ماہ فرقت ہو
رنگ کیا کیا فلک بدلتا ہے

اپنے بیمار کو نہ پوچھ مسیح
اب کوئی دم میں دم نکلتا ہے

داغ کا جسم زار سے ہے فروغ
خس سے جیسے چراغ جلتا ہے

سرد یا عرش پائے قاتل پر
لاش پر وہ بھی ہاتھ ملتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse