شب ہجراں میں دم نکلتا ہے
Appearance
شب ہجراں میں دم نکلتا ہے
کب پیام وصال ٹلتا ہے
دل بیمار سے ہے تنگ مسیح
داغ سے آفتاب جلتا ہے
بے زری سے ہوں پائمال بتاں
زور کس کا خدا سے چلتا ہے
دل نہ لے اے صنم برائے خدا
اس سے کچھ جی مرا بہلتا ہے
آتش عشق زلف پیچاں ہے
ہڈیوں سے دھواں نکلتا ہے
تیرے ہنسنے پہ میں جو روتا ہوں
ابر مانند برق جلتا ہے
تجھ سے اے اشک ماہ فرقت ہو
رنگ کیا کیا فلک بدلتا ہے
اپنے بیمار کو نہ پوچھ مسیح
اب کوئی دم میں دم نکلتا ہے
داغ کا جسم زار سے ہے فروغ
خس سے جیسے چراغ جلتا ہے
سرد یا عرش پائے قاتل پر
لاش پر وہ بھی ہاتھ ملتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |