شب کے ہیں ماہ مہر ہیں دن کے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب کے ہیں ماہ مہر ہیں دن کے
by منیرؔ شکوہ آبادی

شب کے ہیں ماہ مہر ہیں دن کے
روپ دیکھے بتان کمسن کے

بوسے ہیں بے حساب ہر دن کے
وعدے کیوں ٹالتے ہو گن گن کے

ہیں وہ دیوانے جذب باطن کے
اتری ہے شیشہ میں پری جن کے

اہل دل دیکھتے ہیں آپ کا منہ
آئنے میں صفائی باطن کے

دل رواں ہو خیال یار کے ساتھ
جائے مسکن بھی ساتھ ساکن کے

لاغروں پر ہے ظلم جاں شکنی
اے اجل توڑتی ہے کیوں تنکے

رہے کلکتہ میں مخیر منیرؔ
صدقے اپنے امام ضامن کے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse