شب کو پھرے وہ رشک ماہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب کو پھرے وہ رشک ماہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
by تاباں عبد الحی

شب کو پھرے وہ رشک ماہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو
دن کو پھروں میں داد خواہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

قبلہ نہ سرکشی کرو حسن پہ اپنے اس قدر
تم سے بہت ہیں کج کلاہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

خانہ خراب عشق نے کھو کے مری حیا و شرم
مجھ کو کیا ذلیل آہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

تو نے جو کچھ کہ کی جفا تا دم قتل میں سہی
میری وفا کے ہیں گواہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

تیری کمند زلف کے ملک بہ ملک ہیں اسیر
بسمل خنجر نگاہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

کل تو نے کس کا خوں کیا مجھ کو بتا کہ آج ہے
شور و فغاں و آہ آہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

مجھ کو بلا کے قتل کر یا تو مرے گناہ بخش
ہوں میں کہاں تلک تباہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

سینہ فگار و جامہ چاک گریہ کناں و نعرہ زن
پھرتے ہیں تیرے داد خواہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

تاباںؔ ترے فراق میں سر کو پٹکتا رات دن
پھرتا ہے مثل مہر و ماہ خانہ بہ خانہ کو بہ کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse