شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا
by شاد عظیم آبادی

شب کو مری چشم حسرت کا سب درد دل ان سے کہہ جانا
دانتوں میں دبا کر ہونٹ اپنا کچھ سوچ کے اس کا رہ جانا

مے خانہ میں آنا زاہد کا پھر در پہ ٹھٹک کر رہ جانا
ساقی کے اشاروں کا مستوں کچھ کان میں سب کے کہہ جانا

اے یاس نہ مانوں گا تیری بس دل کو زیادہ اب نہ دکھا
سمجھا چکی اس کی پہیلی نگہ دکھ درد جو ہو وہ سہہ جانا

مانا کہ فقط موہوم سہی ملنے کی ہمیں اک آس تو ہے
دیدار تو ہو لے دیدۂ تر بہنا ہو اگر تب بہہ جانا

نالے ہوں کہ آہیں اے شب غم جب آ گئیں لب پر صبر کیا
سہنے کو تو سب کچھ دل نے سہا سہنے کی طرح کب سہہ جانا

بنیاد جمانے میں جن کی کیا کچھ نہ بہا تھا خون جگر
اے وا اسفا ان محلوں کا اک چشم زدن میں ڈھ جانا

شب کو وہ ہتھیلی سے ان کا شرما کے چھپانا آنکھوں کو
برچھی کا ادا کی چل جانا اس تیر نظر کا رہ جانا

اترے نہ کسی کے جب دل میں اس بات کا حاصل کیا واعظ
کہنے کو کہی یوں اپنی سی افسوس نہ تو نے کہہ جانا

ہم باغ میں ناحق آئے تھے بلبل کی حکایت کیا کہئے
منقار کو رکھ کر کلیوں پر کچھ اپنی زباں میں کہہ جانا

سن لیں دل ناداں کی باتیں بیکار بگاڑیں کام اپنا
وہ ظلم کریں ہم پر کہ ستم اے شادؔ ہمیں تو سہہ جانا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse