شب کو تم ہم سے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب کو تم ہم سے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے
by میر حسن دہلوی

شب کو تم ہم سے خفا ہو کر سحر کو اٹھ گئے
شمع ساں رو رو کے ہم بھی دل جگر کو اٹھ گئے

تھے ابھی تو پاس ہی اپنے قرار و ہوش و صبر
تیرے آتے ہی نہ جانے وہ کدھر کو اٹھ گئے

تو نہ نکلا گھر سے باہر صبح سے لے شام تک
دیکھ دیکھ آخر ترے دیوار و در کو اٹھ گئے

کس سے پوچھوں حال میں باشندگان دل کا ہائے
اس نگر کے رہنے والے کس نگر کو اٹھ گئے

اے خوشا وے جو کہ وارستہ تعلق سے ہوئے
جس جگہ چاہا رہے چاہا جدھر کو اٹھ گئے

دیر و کعبہ ہی کو جانا کچھ نہیں لازم غرض
جس طرف پائی خبر اس کی ادھر کو اٹھ گئے

شہر میں رونے کے ہاتھوں جب نہ رہنے پائے ہم
کوہ و صحرا کی طرف لے چشم تر کو اٹھ گئے

پوچھتا ہے حال کیا آوارگان ہند کا
کچھ ادھر کو اٹھ گئے اور کچھ ادھر کو اٹھ گئے

تو اکیلا اس جگہ بیٹھا کرے گا کیا حسنؔ
تیرے ساتھی تو کبھی کے اپنے گھر کو اٹھ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse