شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں
by جلالؔ لکھنوی

شب وعدہ ہے تو ہے اور میں ہوں
ہجوم آرزو ہے اور میں ہوں

دل بیگانہ خو ہے اور میں ہوں
بغل میں اک عدو ہے اور میں ہوں

مٹاتا ہی رہا جس کو مقدر
وہ میری آرزو ہے اور میں ہوں

پریشاں خاطری کہتی ہے اپنی
کسی کی جستجو ہے اور میں ہوں

شب تنہائی فرقت میں دل سے
کچھ اس کی گفتگو ہے اور میں ہوں

گلستاں جہاں ہے قابل سیر
طلسم رنگ و بو ہے اور میں ہوں

نگاہ لطف دلبر کا ہے اظہار
پھٹے دل کا رفو ہے اور میں ہوں

کہیں چھوڑا اگر قاتل کا دامن
تو پھر میرا لہو ہے اور میں ہوں

جلالؔ اس کو بنایا اس نے دشمن
قیامت میں عدو ہے اور میں ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse