شب وعدہ ادھر مجھ کو ہنسی سی آئی جاتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب وعدہ ادھر مجھ کو ہنسی سی آئی جاتی ہے
by بوم میرٹھی

شب وعدہ ادھر مجھ کو ہنسی سی آئی جاتی ہے
ادھر ان کی نظر ہے خود بخود شرمائی جاتی ہے

ابے سالے رہا ہے رات بھر دشمن کے پہلو میں
ترے چہرے سے کچھ شرمندگی سی پائی جاتی ہے

دیا کرتے ہیں مجھ کو آتشیں رخسار کا بوسہ
سمجھتا ہوں طبیعت اب میری گرمائی جاتی ہے

بڑھاپا ہے کہ مجھ پر رات دن وہ آئے جاتا ہے
جوانی ہے کہ تجھ پر رات اور دن چھائی جاتی ہے

شب وعدہ انہیں سختی سے میں لپٹا تو فرمایا
اجی چھوڑو طبیعت اب میری گھبرائی جاتی ہے

یہ ایسا کام ہے جو سات پردوں میں نہیں چھپتا
کہیں بھی ہوں ہزاروں کوس تک رسوائی جاتی ہے

میری خلوت میں رکھی ہیں برہنہ تیری تصویریں
طبیعت بس انہیں سے رات دن بہلائی جاتی ہے

شب وعدہ بھی کوشش کر رہے ہیں مجھ سے بچنے کی
کچھ ایسی بات میرے کان میں سمجھائی جاتی ہے

ابے میں جانتا ہوں اس میں کوئی راز پنہاں ہے
رقیبوں سے میرے سر کی قسم جو کھائی جاتی ہے

ہزاروں رات گزریں اس طرح سے دل کو بہلاتے
وہ اب آتے ہیں اب تشریف ان کی آئی جاتی ہے

زمانہ ہو گیا اس کام کو اس بات کو گزرے
مگر چہرہ پہ اب بھی شرم سی کچھ پائی جاتی ہے

جوانی کا زمانہ پھر جوانی کا زمانہ ہے
بچے انسان کتنا ہی طبیعت آئی جاتی ہے

کلام اچھا سنائے یا سنائے فحش وہ غزلیں
جناب بومؔ سے محفل میں رونق آئی جاتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse