شب وصل ضد میں بسر ہو گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب وصل ضد میں بسر ہو گئی
by داغ دہلوی

شب وصل ضد میں بسر ہو گئی
نہیں ہوتے ہوتے سحر ہو گئی

نگہ غیر پر بے اثر ہو گئی
تمہاری نظر کو نظر ہو گئی

کسک دل میں پھر چارہ گر ہو گئی
جو تسکیں پہر دوپہر ہو گئی

لگاتے ہیں دل اس سے اب ہار جیت
ادھر ہو گئی یا ادھر ہو گئی

جواب ان کی جانب سے دینے لگا
یہ جرأت تجھے نامہ بر ہو گئی

برے حال سے یا بھلے حال سے
تمہیں کیا ہماری بسر ہو گئی

میسر ہمیں خواب راحت کہاں
ذرا آنکھ جھپکی سحر ہو گئی

جفا پر وفا تو کروں سوچ لو
تمہیں مجھ سے الفت اگر ہو گئی

نگاہ ستم میں کچھ ایجاد ہو
کہ یہ تو پرانی نظر ہو گئی

تسلی مجھے دے کے جاتے تو ہو
مبادا جو جوع دگر ہو گئی

کہیں حسن سے بھی ہے کاہیدگی
نہ ہونے کے قابل کمر ہو گئی

شب وصل ایسی کھلی چاندنی
وہ گھبرا کے بولے سحر ہو گئی

کہی زندگی بھر کی شب واردات
مری روح پیغام بر ہو گئی

کہو کیا کروگے مرے وصل کی
جو مشہور جھوٹی خبر ہو گئی

غم ہجر سے داغؔ مجھ کو نجات
یقیں تھا نہ ہوگی مگر ہو گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse