شب وصل روٹھا ہے دلبر کسی کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب وصل روٹھا ہے دلبر کسی کا
by راجہ نوشاد علی خان

شب وصل روٹھا ہے دلبر کسی کا
نہ یوں بن کے بگڑے مقدر کسی کا

غش آیا جو مجھ کو تو ظالم یہ بولا
نہ رکھیں گے زانو پہ ہم سر کسی کا

مسہری پہ پھولوں کی سوتا ہے کوئی
تڑپتا ہے کانٹوں پہ مضطر کسی کا

گئے وہ تو تقدیر پھوٹی کسی کی
وہ آئے تو چمکا مقدر کسی کا

دم قتل بھی منہ پھرائے ہوئے ہے
بڑا بے مروت ہے خنجر کسی کا

وہ دیکھا کئے لے کے سیماب پہروں
جو یاد آ گیا قلب مضطر کسی کا

صبا جا کے چپکے سے کہنا کسی سے
دل آیا ہے اے شوخ تجھ پر کسی کا

پس مرگ آیا جو تربت پہ قاصد
تو رویا بہت نام لے کر کسی کا

شب وصل میرا کچھ اصرار کرنا
بڑھانا وہ شرما کے زیور کسی کا

نہ پامال کر اس کو غنچہ سمجھ کر
یہ دل ہے ارے او ستم گر کسی کا

تڑپتا ہے نوشادؔ فرقت میں ہر دم
جدا ہو کسی سے نہ دلبر کسی کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse