شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
by حیدر علی آتش

شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا

مبارک شب قدر سے بھی وہ شب تھی
سحر تک مہ و مشتری کا قراں تھا

وہ شب تھی کہ تھی روشنی جس میں دن کی
زمیں پر سے اک نور تا آسماں تھا

نکالے تھے دو چاند اس نے مقابل
وہ شب صبح جنت کا جس پر گماں تھا

عروسی کی شب کی حلاوت تھی حاصل
فرح ناک تھی روح دل شادماں تھا

مشاہد جمال پری کی تھی آنکھیں
مکان وصال اک طلسمی مکاں تھا

حضوری نگاہوں کو دیدار سے تھی
کھلا تھا وہ پردہ کہ جو درمیاں تھا

کیا تھا اسے بوسہ بازی نے پیدا
کمر کی طرح سے جو غائب دہاں تھا

حقیقت دکھاتا تھا عشق مجازی
نہاں جس کو سمجھے ہوئے تھے عیاں تھا

بیاں خواب کی طرح جو کر رہا ہے
یہ قصہ ہے جب کا کہ آتشؔ جواں تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse