شب وصل بھی لب پہ آئے گئے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب وصل بھی لب پہ آئے گئے ہیں
by داغ دہلوی

شب وصل بھی لب پہ آئے گئے ہیں
یہ نالے بہت منہ لگائے گئے ہیں

خدا جانے ہم کس کے پہلو میں ہوں گے
عدم کو سب اپنے پرائے گئے ہیں

وہی راہ ملتی ہے چل پھر کے ہم کو
جہاں خاک میں دل ملائے گئے ہیں

مرے دل کی کیونکر نہ ہو پائمالی
بہت اس میں ارمان آئے گئے ہیں

گلے شکوے جھوٹے بھی تھے کس مزے کے
ہم الزام دانستہ کھائے گئے ہیں

نگہ کو جگر زلف کو دل دیا ہے
یہ دونوں ٹھکانے لگائے گئے ہیں

رہے چپ نہ ہم بھی دم عرض مطلب
وہ اک اک کی سو سو سنائے گئے ہیں

فرشتے بھی دیکھیں تو کھل جائیں آنکھیں
بشر کو وہ جلوے دکھائے گئے ہیں

چلو حضرت داغؔ کی سیر دیکھیں
وہاں آج بھی وہ بلائے گئے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse