Jump to content

شب وصال ہنسی آتی ہے مقدر پر

From Wikisource
شب وصال ہنسی آتی ہے مقدر پر
by جگرؔ بسوانی
331048شب وصال ہنسی آتی ہے مقدر پرجگرؔ بسوانی

شب وصال ہنسی آتی ہے مقدر پر
وہ ہم سے روٹھ کے سونے چلے ہیں بستر پر

وہ سخت جاں ہوں کہ قاتل ہے جان سے عاجز
کبھی گلے پہ ہے خنجر کبھی ہے پتھر پر

چلیں گے کعبہ کو زمزم پہ دھو تو لیں زاہد
بہت شراب کے دھبے ہیں دامن تر پر

مریض عشق سے تنگ آ کے چارہ گر نے کہا
اسے بلاؤ یہ مرتا ہے جس ستم گر پر

شب فراق دل بے قرار دور رہے
تڑپ سکیں گے نہ ہم دونوں ایک بستر پر


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.