شب وصال مزا دے رہی ہے تو تیری
Appearance
شب وصال مزا دے رہی ہے تو تیری
لبوں سے گھولتی ہے قند گفتگو تیری
تری زباں کو بگاڑا رقیب بد خو نے
کہ بات بات میں گالی تو تھی نہ خو تیری
لگا رہا ہے حنا کون تیرے ہاتھوں میں
رلا رہی ہے مجھے خون آرزو تیری
ترے سکوت میں بھی اک ادا نکلتی ہے
کہ ہے چھپی ہوئی پردے میں گفتگو تیری
نہ چاک کر دل بے تاب کو مرے ظالم
نکل کے ہو کہیں رسوا نہ آرزو تیری
کبھی ہے قصد حرم کا کبھی ہے عزم کنشت
کشاں کشاں لیے پھرتی ہے آرزو تیری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |