شب ماہ میں جو پلنگ پر مرے ساتھ سوئے تو کیا ہوئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب ماہ میں جو پلنگ پر مرے ساتھ سوئے تو کیا ہوئے
by احمد حسین مائل

شب ماہ میں جو پلنگ پر مرے ساتھ سوئے تو کیا ہوئے
کبھی لپٹے بن کے وہ چاندنی کبھی چاند بن کے جدا ہوئے

ہوئے وقت آخری مہرباں دم اولیں جو خفا ہوئے
وہ ابد میں آ کے گلے ملے جو ازل میں ہم سے جدا ہوئے

یہ الٰہی کیسا غضب ہوا وہ سمائے مجھ میں تو کیا ہوئے
مرا دل بنے تو تڑپ گئے مرا سر بنے تو جدا ہوئے

چلے ساتھ ساتھ قدم قدم کوئی یہ نہ سمجھا کہ ہیں بہم
کبھی دھوپ بن کے لپٹ گئے کبھی سایہ بن کے جدا ہوئے

ابھی ہیں زمانہ سے بے خبر رکھا ہاتھ رکھے یہ لاش پر
اٹھو بس اٹھو کہا مان لو مری کیا خطا جو خفا ہوئے

ہیں عجیب مرغ شکستہ پر نہ چمن میں گھر نہ قفس میں گھر
جو گرے تو سایہ ہیں خاک پر جو اٹھے تو موج ہوا ہوئے

وہ عرق عرق ہوئے جس گھڑی مجھے عمر خضر عطا ہوئی
شب وصل قطرے پسینہ کے مرے حق میں آب بقا ہوئے

کبھی شکل آئنہ روبرو کبھی طوطی اور کبھی گفتگو
کبھی شخص بن کے گلے ملے کبھی عکس بن کے جدا ہوئے

نہ تجلیاں ہیں نہ گرمیاں نہ شرارتیں ہیں نہ پھرتیاں
ہمہ تن تھے دن کو تو شوخیاں ہمہ تن وہ شب کو حیا ہوئے

مرے نالے ہیں کہ ازل ابد ترے عشوے ہیں کہ لب مسیح
وہاں کن کا غلغلہ وہ بنے یہاں قم کی یہ جو صدا ہوئے

گرے ذات میں تو ہے جملہ اوست اٹھے جب صفت میں ہمہ از دست
کہا کون ہو تو ملے رہے کہا نام کیا تو جدا ہوئے

کئے اس نے بزم میں شعبدے ملی مہندی ہاتھ پہ شمع کے
جو پتنگے رات کو جل گئے وہ تمام مرغ حنا ہوئے

مرے دل کے دیکھو تو ولولے کہ ہر ایک رنگ میں جا ملی
جو گھٹے تو ان کا دہن بنے جو بڑھے تو ارض و سما ہوئے

وہی فرش و عرش نشیں رہے ہوئے نام الگ جو کہیں رہے
گئے دیر میں تو صنم بنے گئے لا مکاں تو خدا ہوئے

جو تصور ان کا جدا ہوا دل بے خبر نے یہ دی صدا
ابھی ہم بغل تھے کدھر گئے ابھی گود میں تھے وہ کیا ہوئے

کبھی سوزشیں کبھی آفتیں کبھی رنجشیں کبھی راحتیں
ملیں چار ہم کو یہ نعمتیں ترے عشق میں جو فنا ہوئے

ہمیں شوق یہ کہ ہو ایک طور اسے ذوق یہ کہ ہو شکل اور
بنے آگ تو بجھے آب میں ملے خاک میں تو ہوا ہوئے

گئے سر سے جبکہ وہ تا کمر تو الف ادھر کا ہوا ادھر
ترا جوڑا کھلتے ہی بال سب پس پشت آ کے بلا ہوئے

کوئی دب گیا کوئی مر گیا کوئی پس گیا کوئی مٹ گیا
ترے عشوے سے جب سے فلک بنے ترے غمزے جب سے قضا ہوئے

مجھے گدگدی سے غش آ گیا تو ہلا کے شانہ یہی کہا
ابھی ہنستے تھے ابھی مر گئے ابھی کیا تھے تم ابھی کیا ہوئے

کہو کافروں سے کریں خوشی کہ یہ مسئلہ ہے تناسخی
مرے نالے خاک میں جب ملے تو سبو کے دست دعا ہوئے

پس وصل ہم جو سرک گئے تو وہ کھلکھلا کے پھڑک گئے
کہا شوخیوں نے چلو ہٹو کہ حضور تم سے خفا ہوئے

تمہیں لوگ کہتے ہیں نوجواں کہ ہو بیس تیس کے درمیاں
کہو مجھ سے مائلؔ خوش بیاں وہ تمہارے ولولے کیا ہوئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse