شب فرقت میں یار جانی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب فرقت میں یار جانی کی
by حیدر علی آتش

شب فرقت میں یار جانی کی
درد پہلو نے مہربانی کی

منہ دکھاؤ بہت رہی تکرار
ارنی اور لن ترانی کی

جس کو کہتے ہیں چودھویں کا چاند
تیری تصویر ہے جوانی کی

کمر یار ہو گئی غائب
سن کے دھوم اپنی ناتوانی کی

صورت حال پر ہمارے مہر
داغ نے زخم نے نشانی کی

سیر نعمت سے دو جہان کی کیا
دے کے شبنم کو بوند پانی کی

ہو گیا عشق حسن سے ناگاہ
پوچھتے کیا ہو ناگہانی کی

دل برشتہ ہوا جو مثل کباب
میں نے ترکوں کی مہمانی کی

لب جاں بخش کے قریب وہ خط
شرح ہے متن زندگانی کی

گوش زد ہوتے ہی ہوئی دشمن
نیند تیری مری کہانی کی

کھینچتے اس غزال کی صورت
چوکڑی بھولتی ہے مانیؔ کی

مجھ کو بٹھلا کے یار سوتا ہے
عاشقی کی کہ پاسبانی کی

رہ گیا شوق منزل مقصود
پائے خفتہ نے سرگرانی کی

مثل شبنم ہوں صاف دل قانع
مجھ کو دریا ہے بوند پانی کی

برق چمکی تو سرفراز کیا
ابر آیا تو مہربانی کی

راحت مرگ کو نہ پوچھ آتشؔ
نہ رہی قدر زندگانی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse