شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
by جگر مراد آبادی

شب فراق ہے اور نیند آئی جاتی ہے
کچھ اس میں ان کی توجہ بھی پائی جاتی ہے

یہ عمر عشق یوں ہی کیا گنوائی جاتی ہے
حیات زندہ حقیقت بنائی جاتی ہے

بنا بنا کے جو دنیا مٹائی جاتی ہے
ضرور کوئی کمی ہے کہ پائی جاتی ہے

ہمیں پہ عشق کی تہمت لگائی جاتی ہے
مگر یہ شرم جو چہرے پہ چھائی جاتی ہے

خدا کرے کہ حقیقت میں زندگی بن جائے
وہ زندگی جو زباں تک ہی پائی جاتی ہے

گناہ گار کے دل سے نہ بچ کے چل زاہد
یہیں کہیں تری جنت بھی پائی جاتی ہے

نہ سوز عشق نہ برق جمال پر الزام
دلوں میں آگ خوشی سے لگائی جاتی ہے

کچھ ایسے بھی تو ہیں رندان پاک باز جگرؔ
کہ جن کو بے مئے و ساغر پلائی جاتی ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse