شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی
by قدر بلگرامی

شب غم میں چھائی گھٹا کالی کالی
جھکی ہے بلا پر بلا کالی کالی

بہت ایسے کالے ہرن ہم نے دیکھے
دکھاتے ہیں آنکھیں وہ کیا کالی کالی

ڈٹے مل کے رند سیہ مست جس دم
جھکی میکدے پر گھٹا کالی کالی

شب ماہ میں وہ پھرے بال کھولے
ہوئی چاندنی جا بجا کالی کالی

یہ سجدے کو خود جھک پڑے گی چمن پر
کہ قبلے سے اٹھی گھٹا کالی کالی

کھلی سب پر آخر تری گرم دستی
ہوئی کھولتے ہی حنا کا کالی کالی

لنڈھا دے مے سرخ تو اب تو ساقی
گھٹا اٹھی ہے دیکھ کیا کالی کالی

مرے کعبۂ دل کے مٹنے کا غم ہے
جو اوڑھے ہے کعبہ صبا کالی کالی

ہوئے ہیں سیہ بخت برباد لاکھوں
اٹھیں آندھیاں بارہا کالی کالی

بخارات دل آہ پر چھا گئے ہیں
گھٹا ہے بروئے ہوا کالی کالی

میں دیکھوں گا منہ ان کا دے کر یہ فقرہ
تری شکل ہے مہ لقا کالی کالی

سیہ نامۂ قدرؔ محشر میں نکلا
اٹھی دھوپ میں اک گھٹا کالی کالی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse