شب زندگانی سحر ہو گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب زندگانی سحر ہو گئی
by اسماعیل میرٹھی

شب زندگانی سحر ہو گئی
بہر کیف اچھی بسر ہو گئی

نہ سمجھے کہ شب کیوں سحر ہو گئی
ادھر کی زمیں سب ادھر ہو گئی

زمانے کی بگڑی کچھ ایسی ہوا
کہ بے غیرتی بھی ہنر ہو گئی

عمائد نے کی وضع جو اختیار
وہی سب کو مد نظر ہو گئی

گئے جو نکل دام تزویر سے
ہزیمت ہی ان کی ظفر ہو گئی

زمیں منقلب آسماں چرخ‌ زن
اقامت بھی ہم کو سفر ہو گئی

مٹا ڈالیے لوح دل سے غبار
کسی سے خطا بھی اگر ہو گئی

براہ‌ کرم اس کو طے کیجئے
جو ان بن کسی بات پر ہو گئی

نہ کرنا تھا بالضد مداوائے غم
بڑی چوک اے چارہ گر ہو گئی

یہ ہنگامہ آرا ہیں سب بے خبر
وہ چپ ہیں جنہیں کچھ خبر ہو گئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse