شب زندگانی سحر ہو گئی
Appearance
شب زندگانی سحر ہو گئی
بہر کیف اچھی بسر ہو گئی
نہ سمجھے کہ شب کیوں سحر ہو گئی
ادھر کی زمیں سب ادھر ہو گئی
زمانے کی بگڑی کچھ ایسی ہوا
کہ بے غیرتی بھی ہنر ہو گئی
عمائد نے کی وضع جو اختیار
وہی سب کو مد نظر ہو گئی
گئے جو نکل دام تزویر سے
ہزیمت ہی ان کی ظفر ہو گئی
زمیں منقلب آسماں چرخ زن
اقامت بھی ہم کو سفر ہو گئی
مٹا ڈالیے لوح دل سے غبار
کسی سے خطا بھی اگر ہو گئی
براہ کرم اس کو طے کیجئے
جو ان بن کسی بات پر ہو گئی
نہ کرنا تھا بالضد مداوائے غم
بڑی چوک اے چارہ گر ہو گئی
یہ ہنگامہ آرا ہیں سب بے خبر
وہ چپ ہیں جنہیں کچھ خبر ہو گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |