شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں
by مفتی صدر الدین خان آزردہ

شب جوش گریہ تھا مجھے یاد شراب میں
تھا غرق میں تصور آتش سے آب میں

یا رب وہ خواب حق میں مرے خواب مرگ ہو
آوے وہ مست خواب اگر میرے خواب میں

یا رب یہ کس نے چہرے سے الٹا نقاب جو
سو رخنے اب نکلنے لگے آفتاب میں

کیا عقل محتسب کی کہ لایا ہے کھینچ کر
سودا زدوں کو محکمۂ احتساب میں

ہم جان و دل کو دے چکے موہوم امید پر
اب ہو سو ہو ڈبو دے یہ کشتی شراب میں

کچھ بھی لگی نہ رکھی ڈبو دی رہی سہی
دل کو نہ ڈالنا تھا سوال و جواب میں

الفت میں ان کی اب تو ہے جانوں کی پڑ گئی
دل کس شمار میں ہے جگر کس حساب میں

تھے جستجو میں روز ازل جائے درد کی
آیا پسند دل مرا اس انتخاب میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse