شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
by مومن خان مومن

شب تم جو بزم غیر میں آنکھیں چرا گئے
کھوئے گئے ہم ایسے کہ اغیار پا گئے

پوچھا کسی پہ مرتے ہو اور دم نکل گیا
ہم جان سے عناں بہ عنان صدا گئے

پھیلی وہ بو جو ہم میں نہاں مثل غنچہ تھی
جھونکے نسیم کے یہ نیا گل کھلا گئے

اے آب اشک آتش عنصر ہی دیکھنا
جی ہی گیا اگر نفس شعلہ زا گئے

مجلس میں اس نے پان دیا اپنے ہاتھ سے
اغیار سبز بخت تھے ہم زہر کھا گئے

اٹھا نہ ضعف سے گل داغ جنوں کا بوجھ
قاروں کی طرح ہم بھی زمیں میں سما گئے

غیروں سے ہو وہ پردہ نشیں کیوں نہ بے حجاب
دم ہائے بے اثر مرے پردہ اٹھا گئے

تھی بد گمانی اب انہیں کیا عشق حور کی
جو آ کے مرتے دم مجھے صورت دکھا گئے

تابندہ و جوان تو بخت رقیب تھے
ہم تیرہ روز کیوں غم ہجراں کو بھا گئے

بے زار زندگانی کا جینا محال تھا
وہ بھی ہماری لاش کو ٹھوکر لگا گئے

واعظ کے ذکر مہر قیامت کو کیا کہوں
عالم شب وصال کے آنکھوں میں چھا گئے

جس وقت اس دیار سے اغیار بوالہوس
بد خوئیوں سے یار کے ہو کر خفا گئے

دنیا ہی سے گیا میں جونہی ناز سے کہا
اب بھی گمان بد نہ گئے تیرے یا گئے

اے مومنؔ آپ کب سے ہوئے بندۂ بتاں
بارے ہمارے دین میں حضرت بھی آ گئے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse